مذاکرات کا مرکزی نقطہ
پی ٹی آئی پنجاب سے عوام نکال سکی نہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو سڑکوں پر لاسکی اس لئے اسٹیبلشمنٹ کی بجائے حکومت کے سامنے ہاتھ باندھ کر مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اپنے تئیں عمران خان ابھی بھی چالاکی دکھا رہے ہیں کہ میڈیا کے سامنے مذاکرات کے لئے ہتھیار پھینکنے کی بجائے خاموشی سے مذاکراتی کمیٹی بنادی ہے جبکہ ان کا ہمنوا میڈیا سارا دن شور مچاکر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی ہمشیرہ کے انتقال پر دعا کے لئے جانے والے سابق سپیکر اسد قیصر کی ملاقات کو مذاکرات کا آغاز قرار دیتا رہا لیکن شام ہونے تک اس غبارے سے ہوا نکل گئی۔
اسٹیبلشمنٹ نے اگر دو برس تک عمران خان سے مذاکرات کے لئے انکار کیا ہے تو حکومت کیسے دو دن میں مان جائے گی۔ خواجہ آصف ایسے گھاگ لوگ جب تک پی ٹی آئی کی ناک سے لکیریں نہیں نکلوالیتے، تب تک یونہی زبانی جمع خرچ کریں گے اور جب تک عمران خان اپنے منہ سے مذاکرات کی آمادگی نہیں دیتے، مذاکراتی ٹیم کو یونہی گول گول گھمایا جائے گا۔ یوں بھی اگر مذاکرات کے بغیر ہی معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہو گئے ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں جب بینکوں کی شرح سود بھی دس فیصد سے کم ہوجانے سے کاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہو جائے گا تو پی ٹی آئی کا رہا سہا ڈراوا بھی ختم ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ اگلے چھ ماہ تک حکومت مذاکرات کے لئے جگہ کا تعین ہی کرتی رہے۔
مذاکرات کے لئے پی ٹی آئی کی شرائط کا ملکی ترقی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، اس لئے عوام کے نزدیک ان کی کچھ اہمیت نہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ان شرائط کی گونج ختم ہونے سے پہلے ہی ان سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے غیر مشروط مذاکرات کی حامی بھر لی ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مذاکراتی ٹیم عمران خان کی رہائی میں سنجیدہ نہیں ہے یا پھر اس کی بیک پر وہ عوامی سپورٹ موجود نہیں ہے جس کا استعمال کرکے وہ حکومت کو ان شرائط پر بات کرنے کے لئے آمادہ کرسکے۔
ایک خیال یہ تھا کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت عمران خان کے لئے رہائی کا پروانہ ثابت ہو گی لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بائی پاس کرکے عمران خان کی رہائی کا حکم صادر فرمادے، اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ سیم پیج پر ہو۔ جب عمران خان کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تب بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا ہی یہ تجویز لے کر گئے ہوں گے،۔ اس کے باوجود کہ بلاول بھٹو بھی انہی دنوں امریکہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے کی تصویر اخبارات کی زینت بنی تھی اور پی ٹی آئی والوں نے پھبتی کسی تھی کہ بلاول بھٹو اپنا سی وی لے کر امریکہ گھوم رہے ہیں اور امریکی ایڈمنسٹریشن میں سے کوئی انہیں وقت دینے کے لئے تیار نہیں ہے، اب جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنی بقا کے لئے تگ و دو کر رہی ہے اور نوا ز شریف کوعوام کی نظر میں بے وقعت کرتے کرتے اپنا بھرم کھو بیٹھی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ٹرمپ کی بات مان کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لے اور عمران خان ایسے بیوقوف سیاستدان کے ہاتھوں اپنا اور ملک کا حلیہ بگاڑ لے۔ اس کے لئے تو عمران خان سے کہیں بہتر نواز شریف ہیں جو پاور میں ہونے کے باوجود یوں دم سادھے ہوئے ہیں جیسے اپوزیشن والوں کو سادھ لینا چاہئے، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف تب تک نہیں بولیں گے جب تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض عوام کے سامنے معافی نہیں مانگیں گے کہ انہوں نے پانامہ کی آڑ میں ان کے خلاف چور چور کی جو گردان عمران خان کے منہ سے شروع کروائی تھی، اس پر شرمندہ ہیں۔ ایسا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف نے اپنی ساری سیاست کو اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کی بحالی کے لئے رکھ لیا ہے، ان کے نزدیک وزارت عظمیٰ سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ تاریخ میں اپنا نام پانامہ کے دھبے کے ساتھ نہ چھوڑیں۔ اس اعتبار سے نواز شریف کا صبر، صبر ایوب کے برابر ہے اور دیکھنے کے لائق ہے۔
ایک وقت تھا جب راقم لکھا کرتا تھا کہ لوگوں نے بھٹو کو اووراسٹیمیٹ اور نوا ز شریف کو انڈراسٹیمیٹ کیا ہوا ہے۔ اب انہی لوگوں نے عمران خان کو اوور اسٹیمیٹ اور نواز شریف کو انڈراسٹیمیٹ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور بھٹو کو تو کسی کھاتے میں شمار نہیں کرتے، مگر نواز شریف نے دروازے پر آموجود اقتدار کو ٹھوکر مار کر ثابت کردیا ہے کہ ان کے لئے تاریخ میں زندہ رہنا اقتدار میں رہ کر مرجانے سے بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 8فروری کے انتخابات کے بعد انہوں پی ٹی آئی کو آفر کی تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنالیں اور ملک کو معاشی گرداب سے نکال باہر کریں جس پر پی ٹی آئی دم دبا کر بھاگ گئی تھی۔ کل کا مورخ ضرور لکھے گا کہ پانامہ سے شروع ہونے والی بدنامی بالآخر 9مئی کی سازش بے نقاب ہونے اور ذمہ داران کو سزا ملنے کے بعد نواز شریف کی نیک نامی میں بدل گئی تھی اور ان کے بدخواہوں نے کھلے بندوں ان سے معافی طلب کی تھی۔ سچ پوچھیں تو پی ٹی آئی کے حکومت سے مذاکرات اگر کسی بات پر ہونے جا رہے ہیں تو اس ایک بات پر ہونے جا رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف جھوٹ کا پہاڑ توڑ کر اس میں سے سچ کیسے نکال لیا جائے۔ اس میں جتنا زیادہ وقت لگے گا، عمران خان کے لئے مشکلات اسی تیزی سے بڑھتی جائیں گی۔