پنجاب کی سیاست کے اتار چڑھاؤ

پنجاب کی سیاست کے اتار چڑھاؤ
پنجاب کی سیاست کے اتار چڑھاؤ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نعیم اشرف بٹ لاہور کے نوجوان، ذہین اور متحرک صحافی ہیں۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ سما ٹی وی چینل کے لئے، لئے گئے ان کے حالیہ انٹرویو نے بھی تہلکہ مچا دیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے اور پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے ان سے گفتگو کرتے ہوئے کم و بیش وہی باتیں کیں ہیں جو تین چار ماہ سے ان صفحات پر کالموں اور تجزیوں میں لکھی جا رہی ہیں۔ رانا ثناء اللہ خان ن لیگ کے دبنگ لیڈر ہیں۔

وہ اپنی ذات کے حصار اور خوف کے سائے سے باہر نکل کر سیاست کرتے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی میں اس مختصر دھڑے کے سرخیل ہیں جو پس پردہ معاملات طے کرنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ کھلے بندوں عوامی سطح پر عملی طرزِ سیاست کے ذریعے اپنی سوچ اور نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کے 25 سے 30 ممبران پنجاب اسمبلی مسلم لیگ (ن)سے رابطے میں ہیں۔

اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف کی لندن سے واپسی پر ان اراکین سے ملاقات اور سیاسی معاملات پر بات چیت ہوگی۔ مسلم لیگ(ق) کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے رانا ثناء اللہ کے اس دعوے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ق) کا اتحاد چلے گا اور پنجاب حکومت کو بھی کچھ نہیں ہوگا۔
حالیہ دنوں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت میں متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ چودھری مونس الٰہی کی پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور گورنر چودھری سرور سے ملاقات ہوئی۔ وزیراعلیٰ کی مدینہ منورہ میں سپیکر چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی ہے،جہاں دونوں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے گئے ہیں۔

اسی دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق لاہور چودھری برادران کے گھر پہنچے اور چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ان تمام ملاقاتوں کے بعد اتحاد چلنے اور پنجاب حکومت قائم رہنے کے اعلانات سامنے آئے ہیں۔پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے مطالبات کے عین مطابق سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے محمد رضوان المعروف باؤ رضوان کو پنجاب کابینہ میں شامل کر کے تحفظ ماحول کا محکمہ دیا گیا ہے، جبکہ منڈی بہاوالدین سے ایم پی اے اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی کے دست راست سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی کے بھتیجے ساجد احمد خان بھٹی کو پارلیمانی سیکرٹری بنایا گیا ہے۔بد اعتمادی کی آگ سلگتی رہے گی۔ کسی نہ کسی موقع یا بہانے سے اس میں چنگاری بھڑکے گی اور یہ ایک بڑی آ گ کی صورت اختیار کر لے گی۔
اسی فارمولے کے تحت مرکز میں بھی مسلم لیگ (ق) کو شیئر دیا جائے گا۔ چودھری سالک حسین، چودھری حسین الٰہی اور چودھری مونس الٰہی میں سے کسی ایک کو وزیر اور ایک کو پارلیمانی سیکرٹری بنایا جائے گا۔ مسلم لیگ(ق) کی قیادت چودھری مونس الٰہی کے لئے وزارت صنعت کا مطالبہ کر رہی ہے، مگر دوسری طرف ان کے خلاف بھی بعض خبریں زیرگردش ہیں۔لیکن من پسند وزارتیں لینے، آئندہ مسلم لیگ (ق) کے وزراء کو کام کرنے کی پوری آزادی دینے، ان کے کام میں مداخلت نہ ہونے کی حکومتی یقین دہانیوں،اپنے علاقوں میں اپنی من مرضی کی بیورو کریسی اور پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے کرانے،دو طرفہ وعدے وعید، طفل تسلیوں اور یقین دہانیوں کے بعد بھی مسلم لیگ(ق) کی ناراضگی ختم نہیں ہو گی۔

کل کیا ہونا ہے یہ تو خبر نہیں پر خدا کرے ہمارے ملک اور صوبے کے لئے کچھ اچھا ہو۔ اس قوم نے بہت دکھ جھیلے اور بڑے دھوکے کھائے ہیں۔ اب مزید مایوسی کا نوحہ سننے اور ناکامی کا سامنا کرنے کا حوصلا نہیں ہے، مگر لگتا ہے۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
کامیاب مذاکرات اور ملاقاتوں کے بعد کے بیانات اتحاد چلنے اور حکومت مزید مضبوط ہونے کے دعوے اپنی جگہ، مگر معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور مشاہدہ کرنے والے سیاسی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی نظر میں معاملات اتنے سادہ،سہل، آسان اور سیدھے نہیں جیسا کہ دکھانے اور بتانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔

سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں پنجاب اسمبلی کے 371 کے ایوان میں دس نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ(ق) کی اب تک کی سیاست نے یہ بات سچ ثابت کر دی ہے، کہ چودھری برادران تجربہ، عقل و دانائی، فہم و فراست اور لوگوں کے کام آ نے اور میل ملاپ رکھنے والے سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر رہنما ہیں۔

اپنی انہی خصوصیات کی بدولت وہ حالات کو وہاں لے آئے ہیں جہاں وہ جسامت میں چھوٹے ہوتے ہوئے بھی ’’ناگزیر‘‘ سیاسی ضرورت بن جائیں گے۔ اب ’’دھوبی پٹکے‘‘ کے طور پر مسلم لیگ (ق) نے یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تو مخالفت کریں گے اور تحریک انصاف سے اتحاد پر بھی از سر نو غور کریں گے، یعنی اس سیاسی موقف کا سادہ اور صاف مطلب ہے۔ کہ یا تو عثمان بزدار رہیں ورنہ چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جائے ۔


تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی قیادت پنجاب میں بری طرح اُلجھ چکی ہے۔ اب اگر مزید چھ ماہ بنا کسی کارکردگی کے ایسے ہی گز جاتے ہیں تو تحریک انصاف کو ناقابلِ تلافی سیاسی نقصان کا خدشہ ہے اور اگر وزارت اعلیٰ کی تبدیلی کا سوچا جاتا ہے، تو چودھری پرویز الٰہی کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہتا۔ حالات اس نہج پر بھی پہنچ سکتے ہیں۔ کہ نوبت اسمبلی توڑنے تک آ جائے، کیونکہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں پارٹیوں کے اراکین اسمبلی میں اپنے ہمنوا معقول تعداد میں پیدا کر لئے ہیں۔

جو بوقت ضرورت ان کے کام آ نے لئے تیار ہیں۔ سینئر مسلم لیگی رہنما کبیر علی واسطی نے وزیراعظم عمران خان کو موجودہ صورتِ حال میں صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں چودھری شجاعت حسین سے مشورہ کریں اور ان پر عمل کریں۔ واسطی صاحب نے خود بھی وزیراعظم کو ایک مشورہ دیا ہے۔ کہ اگر چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔

تو ساری مسلم لیگ چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں آ جائے گی۔ اور پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کا اثر کم ہو جائے گا۔ پنجاب میں حکومت سازی کے وقت وزارت اعلیٰ کا معاملہ یقیناایک مشکل اور پیچیدہ فیصلہ تھا۔

یہ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔ وہ اس میں کامیاب ہوئے یا ناکام ؟ کیا اس سے بہتر فیصلہ بھی کیا جاسکتا تھا؟ یہ اور اسی طرح کے دوسری سب باتوں اور سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اب اس صورتِ حال سے نکلنے اور بہتری کی جانب جانے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے جانے ضروری ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -