الیکٹرک وہیکلز

برسوں گزر گئے ہر تھوڑے عرصے کے بعد حکمرانوں کی جانب سے یہ خوش خبری سننے کو ملتی ہے کہ بجلی سستی کی جا رہی ہے‘ مہنگائی کم ہو رہی ہے‘ گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جا رہا ہے‘ لیکن اصل میں ہو اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ بجلی انتہائی مہنگی ہو چکی ہے اور اس کے سستا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی عالمی منڈی سے وابستہ ہیں۔ وہاں اگر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہاں پاکستان میں بھی مجبوراً اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ گیس کی پیداوار بھی مسلسل کم ہو رہی ہے‘ اور ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خاصی بڑی مقدار میں گیس باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو عام آدمی کی قوت خرید میں اتنی کمی واقع ہو چکی ہے کہ اس کے لیے موجودہ قیمتوں میں اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ لاہور میں نان کچھ عرصے کے لیے 20 روپے کا کیا گیا تھا لیکن اب دوبارہ 25 روپے کا کر دیا گیا ہے۔ پتا نہیں تنی جلدی یہ فیصلہ تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ روٹی 14 روپے کی ہے لیکن کوئی بھی ایک روپیہ واپس نہیں کرتا‘ 15کی ہی پڑتی ہے۔ یوں مہنگائی کے اثرات اپنی جگہ برقرار ہیں اور اپنی پوری شدت کے ساتھ برقرار ہیں۔
عوام کو بجلی سستی کرنے کی نوید تو سنائی جاتی ہے لیکن زمینی حقائق کو سامنے نہیں رکھا جاتا جو یہ ہیں کہ ہمیں بجلی پیدا کرنے کے لیے فرنس آئل پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کے نرخ ظاہر ہے عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہاں قیمتیں زیادہ ہوں گی تو فرنس آئل بھی مہنگا ملے گا اور بجلی مہنگی پیدا ہو گی۔ بجلی مہنگی پیدا ہو گی تو ظاہر ہے ملے گی بھی مہنگی ہی۔ پھر ہم نے آئی پی پیز کے نام سے اپنے پیروں میں خود بیڑیاں ڈالی ہوئی ہیں اور اس مسئلے کا کوئی حل بھی نظر نہیں آتا۔ تیسرا یہ کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے وہ ساری سبسڈیاں ختم کر دی ہیں جو عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے اب تک فراہم کی جا رہی تھیں۔ اس کے بعد یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ بجلی سستی ہو گی؟ ہوئی بھی تو دو چار روپے فی یونٹ سستی ہو جائے گی‘ اس سے عام صارف کو کتنا فائدہ ہو گا؟
کچھ عرصہ پہلے حکومت نے جس نئی وہیکلز پالیسی کا اعلان کیا تھا اس میں آئندہ پانچ سال میں یعنی 2030ء تک پاکستان میں 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ پالیسی میں سال 2040ء تک الیکٹرک گاڑیوں کا مجموعی ہدف 90 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ ابتدائی پانچ برسوں میں 3 ارب روپے سرمایہ کاری پر مراعات دی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر لوگوں کے لیے مہنگا پٹرول خریدنا مشکل ہو رہا ہے تو مہنگی بجلی سے اپنی گاڑیاں چارج کر کے وہ کیسے اپنے اخراجات کنٹرول میں رکھ سکیں گے؟ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں‘ بسیں اور موٹر سائیکل ہے تو بڑا شاندار منصوبہ کہ اس کے نتیجے میں فضائی آلودگی کم ہو گی جو یہاں لاہور میں اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گزشتہ روز لاہور دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آلودہ (Polluted) شہر تھا اور اس کی یہ پوزیشن آج بھی برقرار ہے۔ یہ پولیوشن روزمرہ کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے اور عوام کو مہلک بیماریوں کا شکار بنا رہی ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بندہ بیمار ہو تو اس کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آیا لوگوں کے لیے مہنگی بجلی سے چارج کی گئی گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانا ممکن ہو سکے گا؟ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں بھاری بیٹریاں لگی ہوتی ہیں جن کو چارج کرنے پر ہی یہ گاڑیاں چلتی ہیں تو ایک اہم سوال یہ ہے کہ بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلیں یا گاڑیاں اگر کہیں پنکچر ہو جائیں تو ان پر سوار افراد کے لیے اسے پنکچر کی دکان پر لے جانا کتنا مشکل ہو گا؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر موٹر سائیکلوں کو پٹرول کی بجائے بجلی پر منتقل کیا جا رہا ہے تو ان کے ٹیوب لیس ٹائر لگانے کا بھی بندوبست کیا جائے تاکہ انہیں ٹائروں کے پنکچر ہونے کی اذیت سے مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔
حکومت کی جانب سے گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کرنے میں ایک فائدہ بھی نظر آتا ہے۔ یہ کہ جب گاڑیاں زیادہ تعداد میں چارج ہوں گی تو ان کے لیے زیادہ بجلی کی ضرورت ہو گی اور زیادہ بجلی ان آئی پی پیز کے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ چلا کر پوری کی جا سکے گی جو ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کرتے اور پوری پیمنٹ وصول کر رہے ہیں۔ اس طرح انہیں بجلی پیدا کرنی پڑے گی۔ یوں دی جانے والی پے منٹ ضائع نہیں جائے گی‘ اس کا بجلی کی صورت میں فائدہ ہو گا۔ اس طرح وہ رقم استعمال کی جا سکے گی جو بغیر کسی وجہ کے ہر سال آئی پی پیز کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کی خاصی بچت ہو گی اور ہمیں پٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل میں خاصی کمی کرنے میں مدد مل سکے گی۔ یہ یقیناً ایک بڑی بچت ہو گی‘ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بچت جائے گی کہاں؟ آیا یہ عوام پہ خرچ ہو گی یا حکمرانوں کے اللوں تللوں پر خرچ ہو جائے گی۔ یہ ایک اہم اور گہرا سوال ہے جس کا جواب پتا نہیں کسی کے پاس ہے یا نہیں ہے؟
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے معاملات کو کچھ ٹھیک کریں اور یہ ذمہ داری صرف عوام کی نہیں ہے حکمرانوں کی بھی ہے۔ عوام تو مجبور ہیں کہ جب کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے تو انہیں وہ مہنگی ہی خریدنا پڑتی ہے‘ لیکن حکمرانوں کے طرز عمل میں اور طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ملک اور معاشرہ اسی وقت ترقی کرے گا جب سب مل کر بچت کریں گے اور سادگی اختیار کریں گے اور صرف اپنے بارے میں نہیں سوچیں گے ملک اور عوام کی ترقی کے بارے میں بھی سوچا جائے گا۔