قاضی حسین احمد سیماب صفت انقلابی شخص تھے( 1)

صبح کا وقت تھا اور قرآن شریف کا مطالعہ کررہا تھا کہ موبائل پر اطلاع ملی کہ قاضی حسین احمد فوت ہوگئے یہ 6 بج کر 30 منٹ کا وقت تھا اور سورہ یاسین زیر مطالعہ تھی ایک جھٹکا سا لگا اور پھر ان کے لئے دعا کی پھر خیالوں کی دنیا ماضی میں لے گئی خیال بھی کیا نعمت ہے ذہن کی قوت کا کمال ہے کہ ماضی نقش ہوجاتا ہے اور ایک فلم کی مانند گزرے ہوئے لمحات ایک ایک کرکے گزرتے جاتے ہیں اس اطلاع نے ماضی کو (Rewind) کیا اور وہاں فلم رک گئی جہاں ان سے میری ملاقات ہوئی تھی یہ 1980ء کا دور تھا اور وہ کوئٹہ کے دورے پر تشریف لائے تھے اور فاطمہ جناح روڈ پر واقعہ کا شانہ شیخ میں مقیم تھے یہ شیخ عبدالوکیل صاحب کا گھر ہے اور وہ ایک طویل عرصہ تک جماعت کے مالیات کے ذمہ دار تھے یہ واقعہ آج سے 34 سال قبل کا تھا۔
قاضی صاحب 12 جنوری 1938ء کو نوشہرہ کے ایک مردم خیز گاؤں زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے کچھ عرصہ بعد وہ پشاور کے امیر بنے پھر صوبہ سرحد کے امیر بنے 1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور 1987ء تک اس منصب پر فائز رہے اور پھر 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے اس وقت ان کی عمر 49 سال تھی جماعت کے بانی سید ابو اعلیٰ مودودیؒ کی عمر اس وقت 38 سال تھی جب وہ امیر منتخب ہوئے میاں طفیل محمد جب امیر بنے تو ان کی عمر اس وقت شاید 58 سال تھی میاں صاحب 1973ء سے 1987ء تک امیر رہے ان کا دورانیہ 15 سال تھا ۔میاں طفیل محمد مرحوم کے بعد قاضی حسین احمد امیر بنے ۔ان کی امارت کا دورانیہ 22 سال پر محیط تھا ان کے بعد سید منور حسن امیر بنے وہ اپریل 2009ء سے اپریل 2014ء تک امیر رہے ان کی عمر 70 سال کے قریب تھی اور جب سراج الحق امیر بنے تو ان کی عمر اس وقت 52 سال تھی ۔ جماعت اسلامی کا آغاز 1941ء سے ہوا اور اس کا سفر جاری ہے سراج الحق کا ایک پہلو سے بڑا حیرت انگیز اتفاق ہے وہ 5 اپریل 1962ء کو پیدا ہوئے اور 9 اپریل 2014ء کو وہ پاکستان جماعت اسلامی کا حلف امارت اٹھارہے تھے ان کی زندگی میں اپریل کی اہمیت ہمیشہ رہے گی اور اپریل کا مہینہ ان کے لئے خوش بختی کی علامت ہے۔
قاضی حسین احمد مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے ایک طائرانہ نگاہ ماضی پر ڈالنا بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ سراج الحق جماعت کے پانچویں امیر بنے ہیں ان کی امارت کا سفر اس وقت تک جاری رہے گا ،جب تک وہ خود معذرت نہ کرلیں ، جب وہ خود محسوس کرلیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جہاں وہ خود اصرار سے معذرت کرلیں تو پھر جماعت اسلامی بالکل ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوجائے گی جماعت اسلامی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ امیر جماعت 5 سال کے بعد دوبارہ منتخب نہیں ہوئے یہ جماعت کی تاریخ کا پہلا اپ سیٹ تھا اور دوسرا اپ سیٹ یہ تھا کہ سیکرٹری جنرل امیر منتخب نہ ہوسکے ورنہ یہ عمل میاں طفیل محمد سے شروع ہوا اور منور حسن تک رہا یہ تمام سیکرٹری جنرل تھے جو امیر منتخب ہوئے ۔
قاضی حسین احمد مرحوم سے ذہنی تعلق تو 1980ء سے شروع ہوا اور جماعتی تعلق اس کے بہت بعد سے شروع ہوا اس پورے عرصہ میں قاضی صاحب کی سیاسی پیش رفت کو بڑی گہری نظر سے دیکھتا رہا ان کے ہر اقدام اور فیصلوں کا تجزیہ کرتا رہا وہ جماعت اسلامی کے طاقتور امیر تھے وہ بہت کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہوں گے، لیکن ان کو اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب وہ کوئی اہم فیصلہ کرنا چاہتے تھے تو شوریٰ ان کی راہ انقلاب میں رکاوٹ بن گئی۔ دستور نے شوریٰ کو بہت زیادہ اختیارات دے دیئے اور شوریٰ میں جو لوگ پہنچے ہیں ابھی ان میں اکثریت کسی بڑی انقلابی تبدیلی کی خواہش ہی نہیں رکھتی ہے وہ جو ہے اس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں وہ اسٹیٹس کو کے قائل ہیں، بلکہ اس کی گرفت میں ہیں۔ اس لئے جماعت مستقبل میں کوئی بڑے اہم فیصلہ کرسکے گی۔ اس کے آثار فی الحال مفقود ہیں قاضی صاحب کو اس کی گرفت کا اندازہ اس وقت ہوگیا، جب وہ کوئی انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کررہے تھے تو شوریٰ ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوگئی اور بے بس پرندہ کی طرح شوریٰ پنجرہ میں پھڑ پھڑاتے رہ گئے شوریٰ نے ان کے پر ہی کاٹ دیئے۔ اس کا اعتراف انہوں نے 2013ء کے جماعت اسلامی پاکستان کے اس اجتماع میں کیا جہاں انہیں خطاب کی دعوت دی گئی تھی یہ ایک لحاظ سے ان کا الوداعی خطاب تھا اسٹیج پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن صدارت کررہے تھے قاضی صاحب نے بڑی حسرت ویاس سے کہا کہ میرے عزیز آج میں تمہیں دل کی بات بتانا چاہتا ہوں میں بعض اہم اقدامات اور فیصلے کرنا چاہتا تھا میری شوریٰ نے مجھے وہ اقدامات اٹھانے ہی نہیں دیئے اور میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکا یہ ان کے اظہار خیال کی عکاسی ہے اس اجتماع میں موجود تھا اور ہال میں یہ تقریر تھی ۔
اب جب قاضی صاحب پر کچھ لکھ رہا ہوں تو خیالوں میں ملاقاتوں اور نشستوں کی ایک طلسماتی جگمگاتی دنیا ستاروں کی مانند جھلملاتی اتر رہی ہیں اور حیران ہورہا ہوں کس کو لے لوں اور کس کو چھوڑ دوں اب خیال آرہا ہے کہ قاضی صاحب پر تو شاید کالم کا دامن تنگ ہوجائے ان پر ایک مختصر سی کتاب بن سکتی ہے ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے 1980ء میں قاضی صاحب کوئٹہ تشریف لائے اور اقبال مگسی کے بھائی کے مہمان خانہ میں تھے ظہرانہ میں افغان جہاد کے طاقتور کمانڈر جناب گلبدین حکمت یار بھی موجود تھے میرا مکان اسٹوریٹ روڈ پر ہی تھا اور وہ جہاں ٹھہرے تھے وہ چند قدم کے فاصلے پر تھا اس نشست میں قاضی صاحب خلیل حامدی ، آغا تاج محمد، اور مجھے بھی دعوت تھی کھانے سے قبل دلچسپ گفتگو ہورہی تھی گلبدین حکمت یار کی تمام گفتگو پشتو میں ہورہی تھی گلبدین نے قاضی صاحب کو کہا کہ مجھے آپ سے گلہ ہے اور انہوں نے یہ بڑے ادب اور مسکراتے ہوئے کہا قاضی صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو ہم سے کیا گلہ ہے ہم تو تمام مجاہدین کے حامی ہیں اور مدد کررہے ہیں گلبدین نے کہا کہ قاضی صاحب حزب اسلامی باقی تمام مجاہد تنظیموں سے زیادہ جماعت اسلامی کے قریب ہے اور ہم نظریاتی طور پر بھی آپ سے بہت قریب ہیں اور ہم خیال ہیں ،لیکن آپ ہماری بجائے پروفیسر ربانی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ہمیں اتنی اہمیت نہیں دیتے ۔ قاضی صاحب نے کہا نہیں نہیں ہم سب کے حامی ہیں اور ہم تمہارے ساتھ ہیں، لیکن گلبدین کو اصرار تھا کہ قاضی صاحب ہمیں کم اہمیت دیتے ہیں اور پروفیسر ربانی کو زیادہ دونوں کی گفتگو کھانے کے ساتھ چلتی رہی اب باقی گفتگو یاد نہیں ہے یہ چونکہ اہم بات تھی اس لئے ذہن میں نقش ہوگئی اور مجھے یاد ہے انقلاب ایران کے حوالہ سے میری اور خلیل حامدی (مرحوم) کے ساتھ دلچسپ نوک جھونک بھی ہوئی اور وہ بڑے پریشان ہوئے کہ اس محفل میں ایران کے انقلاب کا حامی ایک شخص موجود ہے اور دلائل بھی دے رہا ہے ہم دونوں کی گفتگو جناب گلبدین اور قاضی صاحب بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔
واپسی پر ان کے ساتھ ائیر پورٹ چھوڑنے جارہا تھا تو انہوں نے کہا شادیزئی ایران کے بارے میں خلیل حامدی نے مجھے یہ معلومات دی ہیں اور انہوں نے ایک کتاب کے حوالہ سے کہا کہ حامدی صاحب نے بتلایا کہ یہ کتاب کویت سے شائع ہوئی ہے۔ قاضی صاحب سے کہا یہ پروپیگنڈہ اور یہ بات غلط ہے اور ان سے کہا کہ بعض معلومات آپ کو براہ راست ہونی چاہئیں چونکہ آپ امیر جماعت ہیں اور مسائل کو دوسروں کی آنکھ سے نہ دیکھیں اور ان سے کہا کہ ایران میں اسلامی انقلاب ہے جماعت کو اس انقلاب کے قریب جانا چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے وہ بڑی خاموشی سے میری گفتگو سنتے رہے اور کوئی درمیان میں بولے نہیں کوئٹہ ائیر پورٹ پر انہیں خدا حافظ کہا اس وقت بلوچستان کے امیر جماعت اسلامی حمید مینگل تھے۔ان سے دوستی ایک زمانہ پر محیط تھی وہ ایران میں انقلابی تبدیلی کے زبردست حامی تھے۔ (جاری ہے)