پیٹرولیم انڈسٹری کے بڑھتے ہوئے مسائل
پی ٹی آئی کی حکومت ابھی تک معاشی مخمصہ میں ڈوبی ہوئی ہے ،بیرونی دوستوں سے قرضے اور امداد لینے کے باوجود اسکی معاشی اصلاحات اور پالیسیوں کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس ماہرین معیشت نہیں ہیں اور ابھی تک ڈنگ ٹپاو¿ فارمولے پر عمل کیا جارہا ہے ۔گویا معیشت کا نظام” ہنگ پالیسی“ کا مرہون منت ہے جس کی بنیادیں مضبوط بنانے پر توجہ نہیں دی جارہی نہ ملک کے سرمایہ دار کاروباری طبقے اور اداروں کو قوت اعتماد مہیا کی جارہی ہے ۔اسکی ایک مثال یوں بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ حکومت ایسے اداروں پر ٹیکس بڑھا کر ان سے ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے جو پہلے ہی کافی ٹیکس کرتے ہیں ۔ان میں پیٹرولیم انڈسٹری اور موبائل انڈسٹری براہ راست ملوث ہیں جبکہ بینکوں کے نظام میں بھی بڑی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں ،جہاں کسی بھی صارف کو بیرون شہر ٹرانزیکشن یا دوسرے بینک میں معمولی سی رقم پر بھی بھاری فیس ادا کرنا پڑے گی ۔
حیرت ہے کہ حکومت اپنے اس ایجنڈے پر کہ ملک میں سرمایہ داروں اور کاروباری طبقوں کی حوصلہ افزائی کرکے ملک میں مہنگائی اور قلت کو ختم کیا جائے گا مگر پیٹرولیم جیسی مصنوعات پر لیویز ٹیکس کئی گنا بڑھانے پر تُل گئی ہے۔ جس سے آنے والے ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوگا ۔اسلام آباد چیمبرآف کامرس نے اس پر تحفظات بھی ظاہر کئے ہیں کہ لیویزٹیکس بڑھا کر کاروباری حلقوں کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔ایسی صورت حال سے لامحالہ خسارے کو کم کرنے میں مصنوعات کے معیار پر فرق بھی پڑسکتا ہے جبکہ مہنگائی کا عفریت بھی اٹھ کھڑا ہوگا ۔دوسری طرف عالم یہ ہے کہ حکومت پیٹرولیم کی مد میں ای سی سی کے اصولوں سے بھی انحراف کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی ادائگیوں کے لئے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر ڈالر پالیسی کا اطلاق کررہی ہے ۔یہ ایسا طرز عمل ہے جس سے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں خسارے کا شکار ہونے کے علاوہ گھاٹے کی بنیاد پر پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے پر مجبور ہوں گی ۔اوگرا نے گزشتہ چند ماہ کے دوران اپنے مقررہ کردہ نرخوں کے برعکس مہینے کے اختتام پر ان کمپنیوں سے جو ادائیگیاں وصول کی ہیں ،وہ کسی طور جائزنہیں اور ضابطہ کی خلاف ورزی بھی ہے کہ جب انہوں نے ڈالر کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق آئل کی قیمتیں مقرر کردی تھیں تو اس دوران اگر ڈالر روپے پر مزید بھاری ہوبھی گیاتو اس کا اثر طے شدہ نرخوں پر نہیں پڑنا چاہئے تھا ۔او ایم سیز ذرائع کے مطابق اوگرا کے سامنے یہ کیس رکھا جاچکا ہے کہ اگر یہی پالیسی برقرار رہی تو ان حالات میں پاکستان میں آئل مارکیٹنگ کمپنیاں خسارے کی بنیاد پر نہیں چل سکیں گی جبکہ ان سے ناجائز طور پروصول کردہ اربوں ڈالر پر اب کمپنیوں کو ریلیف ملنا چاہئے لیکن ”اوگرا“ بوجوہ اس پرخاموش ہے ۔
اوگرا سمیت وزارت پیٹرولیم کے دیگر شعبوں میں ان دنوں ایسی ہی غیر مستحکم پالیساں چلائی جارہی ہیں جس سے خدشہ پیدا ہونے جارہا ہے کہ آئیندہ چند ماہ کے دوران ملک میں پیٹرولم انڈسٹری بدترین مندے کا شکار ہوجائے گی ۔جیسا کہ بزنس ریکارڈر کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چند ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات شدید مندے کا شکار ہوئی ہیں جس سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں بھی شدید دھچکا لگا ہے ۔بجائے کہ حکومت اپنی غیر مستحکم اور وقتی پالیسیوں کی اصلاح کرتی اب اس نے لیویز ٹیکس بڑھا کر اپنا خسارہ پورا کرنے کی جانب قدم بڑھایا ہے ،دوسری جانب پیٹرولم انڈسٹری کو لاحق ہونے والے خطرات کی اسکو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
وزارت پیٹرولیم نے ملک بھر میں ریفائنریز کے حوالے سے بھی ایک پالیسی جاری کی ہے جس میں ریفائنریز کو پیٹرول کی اسٹوریج بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ ملک میں پیٹرول کی سٹوریج بڑھانے کا معاملہ ازخود ایسی اہمیت کا حامل ہے جس پر پچھلے ستر سالوں سے کوئی بڑا کام نہیں ہوا ۔حکومت اس بارے میں ریفائنریز کو کیا مراعات دی ہے ،اس پر ابھی تک سوالیہ نشان ہے ۔ریفائنریز کو کہا تو جاتا ہے کہ وہ اکیس دنوں تک اسٹوریج کو ممکن بنائیں لیکن عملاً ملک میں دس دن کا آئل ہی ذخیرہ ہوتا ہے جبکہ” اسٹریٹجک آئل “ کے بین الاقوامی نظریات کے تحت ملک میں کم از کم پینتالیس دنوں کے لئے پیٹرول اسٹوریج ہونی چاہئے ۔اس کا عندیہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے چند دن پہلے غیر ملکی پیٹرول تلاش کرنے والی کمپنیوں کو دی جانے والی رعایات و مراعات کے دوران بھی دیا تھا کہ ملک میں پیٹرولیم کی خود کفالت بڑھنے سے اسٹریٹجک آئل کا دیرینہ خواب بھی پورا ہوگا۔اس وقت پوری دنیا میں خاص طور پراہم اور بڑے ملکوں میں اسٹریٹجک آئل پر ترجیحا ًکام ہورہا ہے ۔خاص طور پر وہ ملک جو دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں یا جنہیں جنگوں کے خدشات لاحق رہتے ہیں یا پھر جہاں انرجی کرائسز زیادہ پایا جاتا ہے، انہیں اسٹریٹجک آئل سسٹم کو ڈویلپ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔پاکستان ان میں سے ٹاپ ترین ہے جہاں اسٹریٹجک آئل کے نظام کو بنانے کے ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر انہیں اعتماددینے کی ضرورت ہے ۔یہ کام حکومت سے زیادہ اوگرا اور وزارت پیٹرولیم کے کرنے کا ہے جوبرسوں سے ڈنگ ٹپاوپالیسی پر گامزن ہیں حالانکہ انہیں مستقل بنیادوں پر ملک میں پیٹرولیم انڈسٹری سے متعلقہ جملہ منصوبوں پر کام کرنا چاہئے۔
۔۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے