ٹک ٹک ٹک، گھر ہو یا سڑک ،دفتر ہو یا ہوٹل، ہر طرف ٹک ٹک ٹک اور ہیش ٹیگ کا شور، ٹرینڈز کے چکر میں نوجوان امی ابو کا خالہ اور چاچو سے باتیں کرنا تو دور کی بات، کھانا پینا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو نہلانے اور کھلانے تک سے لاعلم ہو چکے ہیں۔ نگوڑے موبائل نے جہاں د نیا بھر کی معلومات آپ کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے، وہیں ایک گھر کے اندر بھی دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ اسلام آباد کی ایک ٹھنڈی شام میں ایک ریسٹورنٹ کے کونے میں بیٹھی ایک آنٹی نے کولڈ کافی کی لمبی سے چسکی لی اور ساتھ بیٹھی خاتون سے گلہ کیا، دوسری خاتون نے بھی مہنگی شال درست کرتے ہوئے نزاکت اور شائستگی سے پلیٹ سے بار بی کیو کی ایک بوٹی کا ٹکڑا اٹھایا، پھر بولیں ، ہاں بھئی یہ تو ہے، میری بیٹی کے پا س تو وقت نہیں مجھ سے بات کرنے کےلئے، اسی لئے یہاں تمہارے پاس آگئی ہوں، انہوں نے ساتھ ہی پرس سے ٹشو پیپر نکال کر ہونٹوں پر لگی لپ سٹک صاف کی۔ ایک اہم میٹنگ کے لئے میں بھی اسلام آباد کے اسی ریسٹورنٹ میں اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ افسر کا انتظار کر رہی تھی۔ اسی لئے سوچ لیا کہ گھر واپس آکر اس موضوع پر ضرور لکھوں گی کہ آخر لکھنے لکھانے کے فائدے کیا ہیں؟؟؟۔
اگرچہ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا ہے کہ واقعی لکھنا آپ کی دماغی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے یا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکن ماہرین آپ کے دماغ کے اندر جذبات اور احساسات کوباتوں کو بوتل میں بند کوئی توانائی سمجھتے ہیں کہ جو باہر آجائے تو آپ کی شخصیت میں بہتری لا سکتا ہے ۔ بعض ڈاکٹروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر آپ لکھنا شروع کر دیں تو ذہنی صحت بہتر ہو گی اور اس سے آپ کو خود کو تلاش کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔ ایک اچھا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود اعتمادی بڑھانے سے لے کر بہتر فیصلے کرنے تک کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے ۔
ارنسٹ ہیمنگوے مشہور امریکی ناول نگا ر ہیں۔ ان کا عہد اکیس جولائی 1899ء سے لے کر 1961ء تک رہا۔ اُن کا مشہور قول ہے " لکھنے والے اپنے اندر جو درد محسوس کرتے ہیں، انہیں وہ درد سپرد قلم کرنا چاہیے،ا س دکھ اور کرب میں دوسروں کو بھی شامل کرنا چاہیے " اگرچہ اس وقت ہیمنگوے کو تو علم نہیں تھا لیکن تحقیق نےثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی اپنے اندر کا دکھ، درد، کرب یا کوئی بھی خوشی کی کیفیت ضبط تحریر میں لاتا ہے تو یہ عمل دماغی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔۔۔ اب تک ایسے دو سو تحقیقاتی مکالے چھپ چکے ہیں کہ جن سے پتا چلتا ہے کہ اگر آپ اپنے جذبات کو تحریر میں لے آئیں تو دماغی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لیکن نفسیاتی فوائد کے حوالے سے الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔
ایک نظریئے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر آپ دل کی بات زبان پر نہیں لائیں گے یا اس کو تحریر کی شکل نہیں دیں گے تو یہ نفسیاتی الجھنیں پیدا کرے گی۔ دوسری صورت میں آپ کی تحریر دماغی صحت کومطمئن حد تک لے جا سکتی ہے کیونکہ آپ نے ان جذبات کو محفوظ، رازدارانہ اور آزاد طریقے سے ظاہر کر دیا ہے۔ یوں اندر کا کرب باہر آنے سے آپ کو سکون بھی محسوس ہو سکتا ہے ، تو میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ کس طرح خود شناسی آپ کی توجہ اپنے اندر کی طرف موڑ سکتی ہے جس سے ہم اپنے خصائص، برتاؤ، احساسات، عقائد، اقدار اور محرکات کے بارے میں مزید آگاہ ہو سکتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے اندر چھُپی صلاحیتوں کے بارے میں خود آگاہ ہونا ایک دو نہیں، کئی طریقوں سے فائدہ مند ہو سکتا ہے، یعنی خود اعتمادی بڑھ سکتی ہے، دوسروں کے نظریات اور عقائد زیادہ اچھے انداز میں قبول کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے، ہمیں مزید(سلیف کنٹرول) یا خود پر قابو پانے اور اپنے اہداف کے مطابق بہتر فیصلے کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے احساسات تحریر کرنا یا خوداپنے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ روزانہ اپنی ڈائری لکھیں گے تو آپ کی پریکٹس ہو گی اور دماغ بھی بہتر انداز میں کام کر ے گا ، اسی طرح اپنی تحریر کو بار بار پڑھنے سے اپنے خیالات، احساسات، رویے اور عقائد کے بارے میں بھی گہری بصیرت فراہم ہو سکتی ہے ۔
ماہرین نے تین قسم کی تحروں کا ذکر کیا ہے جو ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ ان میں سے نمبر ایک ہے، Expressive writing۔ یہ تاثراتی تحریر عام طور پر الجھن کا شکار لوگوں کو کچھ سکون دینے کےلیے لکھوائی جاتی ہے۔ یعنی اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرب و اذیت والے زندگی کے واقعات یا تجربات کے بارے میں اپنے خیالات اور احساسات لکھیں۔ ایسی تحریر کا مقصد کسی مشکل چیز کو جذباتی طور پر آسان کرنے میں مدد کرنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تاثراتی تحریر خود آگاہی کو بڑھا سکتی ہے، ڈپریشن کی علامات، فکر مند خیالات اور سمجھے جانے والے تناؤ کو کم کرتی ہے۔
دوسرے نمبر پر ہے Reflective writing۔ یہ وہ انداز تحریر ہے کہ جس میں باقاعدگی سے پیشہ ورانہ انداز استعمال کیا جاتا ہے، نرسوں، ڈاکٹروں، اساتذہ، ماہر ین نفسیات اور سماجی کارکنوں کو لوگوں سے گہرے لگاؤ کے لئے مدد ملتی ہے۔ تحریر کا یہ طریقہ لوگوں کو سیکھنے اور ترقی کے لیے واضح طور پر اپنے عقائد اور اعمال کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ فراہم کرنا ہے۔تیسرے نمبر پر ہے، Creative writing۔ نظمیں، مختصر کہانیاں، ناول اور سبھی تخلیقی تحریریں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ تخلیقی تحریر کسی شخص کے تخیل کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے اس کی یادداشت کو بھی امتحان میں ڈالتی ہے جس سے دماغ تیزی سے کام کرتاہے ۔ کہا جاتا ہےکہ تخلیقی تحریر خیالات، احساسات اور عقائد دریافت کرنے کا منفرد طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر، آپ ایک سائنس فکشن ناول لکھ سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آپ کے خدشات کی نمائندگی کرتا ہے یا بچوں کی کہانی جو دوستی کے بارے میں آپ کے عقائد کو بیان کرتا ہے۔ تخلیقی تحریر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ، استعاروں اور تصاویر کا انتخاب اس انداز میں کریں کہ وہ واقعی کچھ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اور انداز تحریر ہے جس کو Writing for self-awareness کہتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اچھی ذہنی صحت کے لئے خود آگاہی ایک اہم جز ہے اور لکھنا شروع کرنے کے لئے ایک بہترین وجہ ہے۔ اگر آپ روزانہ پندرہ منٹ ایسا کر لیں تو آپ کی دماغی صحت میں بہتری آسکتی ہے ۔
ویسے وہ دن تو گئے جب کسی اخبار میں چھپوانے کےلئے تحریر نہایت نَپی تُلی، پُر مغز اور اعلیٰ اخلاقی معیارات کے مطابق ہوتی تھی، قلم کاروں کو معاشرے میں بلند مقام حاصل تھا اور لوگ انہیں مشعلِ راہ کے طور پر دیکھتے تھے۔
سوشل میڈیا کے اس دور اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد آن لائن بلاگز نے تو ہر مشکل ہی حل کر دی ہے۔ آپ کے لئے اپنے خیالات بڑی آڈیئنس تک پہنچانے کا آسان ذریعہ مل گیا ہے۔آپ اپنا ذاتی بلاگ بنا سکتے ہیں، آن لائن پلیٹ فارمز پر چھپوا سکتےہیں۔ اب تو ایسے پلیٹ فارم موجود ہیں کہ آپ لکھ کر اس کی آڈیو ریکارڈ کریں اور اپ لوڈ کر دیں، بڑی بڑی کمپنیاں میدان میں آچکی ہیں جو آپ کی اپنی آواز میں آپ کی تحریر کی آڈیو پوڈکاسٹ کی صورت میں اپ لوڈ کر نے کا آپشن دیتی ہیں، صرف اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ کی تحریر تخلیقی اور کچھ منفرد ہو۔
چوٹی کے ماہرین کا خیال ہے کہ چند منٹ کی دلچسپ آڈیو سننا ہزاروں الفاظ پر مشتمل خشک تحریر پڑھنے سے آسان اور اپیلنگ ہے ، اس لئے آپ کی تحریرمیں جان ہے تو ہزاروں لوگ آپ کے خیالات اور ماہرانہ رائے سننے کےمنتظر بیٹھے ہیں۔ لیکن زارا ٹھیریئے۔ ماہرین نے آپ کے لئے کچھ نکات ڈھونڈ نکالے ہیں کہ کیا اور کیسے لکھنا ہے۔
استاد لوگ کہتےہیں کہ کچھ بھی لکھنے سےپہلےاس کا مقصد واضح ہونا چاہیے۔ ویسے تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن سب سے اہم مقصد یہ ہو کہ اپنے خیالات، مشاہدات ، علم اور تجربے کو الفاظ اور جملوں میں ڈھال کر ایسی تحریر تخلیق کریں جس سے قاری کا عمل بہتری کی طرف گامزن ہو۔ اسی طرح دوسری چیز واضح مرکزی خیال ہے۔ اگر آپ اپنی ذہنی صلاحیت بڑھنا اور موبائل سے جان چھڑانا چاہتےہیں تو بلاگ لکھا کریں، مگر آپ کے ذہن میں تحریر کا مرکزی خیال بالکل واضح ہونا چاہیے ۔ اگرآپ خود کسی کنفیوژن کا شکار ہیں تو متاثر کن تحریر ہرگز وجود میں نہیں آ سکتی ۔ آپ کو اپنے اردگرد ایسےکئی موضوعات بکھرے ملیں گے جن پر لکھ کراپنے اندر کا تذبذب دور کیا جا سکتا ہے اور اصلاحِ معاشرہ میں بھی اپنا حصہ ڈالا جا سکتا ہے۔ ایک درخواست ہے کہ ایسے موضوع کا انتخاب ہرگز نہ کریں جس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہو اور اس ایشو پر پہلے سے رائے عامہ ہموار ہو چکی ہو۔ انٹرنیٹ پر سرچ کر کے معلوم کریں کہ کسی ایشو پر اب تک کیا لکھا جا چکا ہے، آپ اپنا نقطہ نظر اس منزل سے آگے شروع کریں۔
میری آپ کو تجویز ہے کہ دورانِ تحریر خیالات، حالات اور واقعات ایک منطقی ترتیب سے اس طرح پیش کریں کہ ہر پیراگراف سے قاری کی معلومات میں سلسلہ وار اضافہ ہو اور وہ اگلے سے اگلا پیراگراف پڑھنے پر مجبور ہوتا چلا جائے۔ بے ڈھنگی ترتیب قاری کو کنفیوز کر دیتی ہے اور وہ دلچسپی کھو دے گا۔ ایک منظم ترتیب ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قاری کےلیے تحریر کے آخر تک دلچسپی برقرار رہے گی۔ اساتذہ کرام اور ماہرین کہتے ہیں کہ تحریر کی مقصدیت دو حصوں پر مشتمل ہے؛ اول یہ کہ قاری کچھ حاصل کر رہا ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ قاری کسی نتیجے پر پہنچ رہا ہے یا نہیں؟ تو آپ بہترین معلومات فراہم کیجیے تاکہ قاری تحریر سے کچھ حاصل کرے اور معلومات کو منظم انداز میں پیش کریں ۔ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ معلومات، واقعات یا حوالہ جات میں غلطی ہر گزنہ کریں۔ اسی طرح مصدقہ و مستند معلومات کو معیاری جملوں اور درست الفاظ میں بیان کریں۔
آج کل لوگوں کے پاس پڑھنے کےلئے بالکل وقت نہیں ہے۔ اس لئے اگر وہ آپ کی تحریر کی طرف آہی گئے ہیں تو ان کے راستے میں مشکل الفاظ کے روڑے نہ اٹکائیں، طویل پیچیدہ جملوں کی سرنگیں نہ بچھا ئیں ، غیر ضروری ڈیٹا میں مت الجھائیں ، الفاظ اور مفہوم کی تکرار سے دور رہیں۔ سادہ الفاظ سے بنے ہوئے چھوٹے اور بامعنی جملے استعمال کریں جن سے مفہوم خود بخود چھلکتا جائے۔ چونکہ لوگ لمبی چوری تحریر نہیں پڑھتے، اس لئے آپ کی تحریر حد سے زیادہ طویل ہو گی تو تاثیر کھو دے گی۔ ایک عام بلاگ کو بارہ سو سے پندرہ سو الفاظ تک محدود ہونا چاہیے ، لیکن مضمون کی مناسبت سے اس میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اخبارت میں لکھنا چاہتے ہیں تو سمجھ لیں کہ کالم نگاری الفاظ، جملوں، خیالات اور معلومات کے فنکارانہ امتزاج کا نام ہے۔ مطالعہ وسیع کریں تاکہ آپ کے پاس الفاظ، خیالات اور معلومات کا بہترین مجموعہ اکٹھا ہو سکے۔
آخر میں کچھ گذارشات ہیں کہ سائنسی تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوچکا ہے کہ اپنے ہاتھ سے لکھنے کی عام عادت انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس سے زندگی کے مثبت تصور کو قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہاتھ سے تحریر کرنے کی عادت دماغی نشوونما میں بہتری اور افعال کو متحرک کرتی ہے کیونکہ اس عمل کے دوران دماغ کی بورڈ پر ٹائپنگ کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہوتا ہے۔ تحریر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار مزاج کو بہتر،تناؤ کو کم اور زندگی پر اطمینان بڑھا دیتا ہے۔
کسی کارڈ کو خریدنے کے بعد آپ اس میں کوئی اچھا پیغام لکھنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں جو دوسرے فرد کے دل کو بھی چھو جائے، اس کے مقابلے میں واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک یا یوٹیوب پر پیغامات میں بہت مختصر جملے استعمال ہوتے ہیں ۔ کاغذ اور قلم کا امتزاج بصری اور دماغی افعال کو مختلف انداز میں متحرک کردیتا ہے ۔ ہاتھ سے تحریر کے لیے تمام حصوں سے مدد لینا پڑتی ہے اور ملٹی ٹاسکنگ کی عادت کو ذہن سے نکالنا پڑتا ہے۔
آپ ڈائری لکھنے کو بھی اپنا مشغلہ بنا سکتے ہیں جس سے عام طور پر ذہن میں آنے والے مختلف خیالات کو درج کر لینا ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف تجربات ہمیں مختلف احساسات سے گزارتے ہیں، کئی بار ذہن مختلف قسم کے خیالات میں الجھ جاتا ہے لیکن ان خیالات اور احساسات کو بعد میں یاد رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے ڈائری میں انھیں درج کر لینے سے وہ آپ کے پاس رہتے ہیں۔ اگر آپ مستقل ڈائری میں لکھتے رہیں تو آپ کو ان مسائل کو پہچاننے میں بھی مدد ملتی ہے جو غیر ضروری طور پر آپ کو روزمرہ کی بنیاد پر پریشان کرتے ہیں۔ کاغذ پر لکھے لفظ کہنے کو ساکت و جامد ہوتے ہیں ،لیکن ان میں دنیا جہاں کے رنگ، ذائقے، لمس، خوشبوئیں اور جذبے پائے جاتے ہیں ، یہ سوچوں اور مزاج کا آئینہ بن کر انجانے لوگوں کو ایک دوسرے سے یوں منسلک کردیتے ہیں جیسے وہ زمانوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہو۔
میں نے اس تحریر میں آپ کو کئی ایسی ٹپس دی ہیں جن کا اطلاق آپ کو اس بلاگ میں نظر نہیں آئے گا ، جیسے آپ کا بلاگ طویل نہ ہو، الفاظ سادہ اور آسان ہوں وغیرہ، تو آپ یہ بات نوٹ کر لیں کہ اس بلاگ کا مقصد چونکہ اپنے قارئین تک ایک خاص پیغام پہنچانا تھا، اس لئے آپ کو اس تحریر میں بعض اصولوں کی خلاف ورزی نظر آئے گی، لیکن یہ خلاف ورزی تحریر کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک اصلاحی پہلو بھی ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔