ایک اور کہانی
ہائے بُرا وقت، ہائے زوال، اقتدار کے عروج پر لہجوں میں غرور،گردن میں تن تنی اور نظروں میں حقارت اور اب خلقت خدا سے کئے گئے وعدوں سے انحراف میں بہانے،کمزور دلیلیں اور اپنی ناکامی کو دوسروں کے سر تھوپنے کی کوششیں، سب سے درد ناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب شجر سے خود پتے جھڑنے لگتے ہیں اور سوکھے پتوں کی کھڑ کھڑ اہٹ فضا میں خزاں کے اداس نوحے سنا رہی ہوتی ہے۔اپنے پرائے ہونے لگے اور حلیف حریفوں جیسے تیور دکھانے لگے۔قصیدے ملامتوں میں بدلنے لگے مخفی کا یہ شعر حکمرانوں کے لئے ہی نہیں ہر انسان کیلئے زندگی کا سبق ہے۔
زوبہ شوی ہر کہ ارم ، زو بگر داند زم
بخت چون گردد زبوں ، ہر تن قبا دشمن شود
( میں جس کی جانب چہرہ کرتا ہوں وہ مجھ سے چہرہ پلٹ لیتا ہے، انسان کا بخت زبوں ہو جائے تو تن پر قبا دشمن ہوجاتی ہے)
کپتان کی ٹیم ……ٹیم تھی کب، اسے مانگے تانگے کی ٹیم کا کپتان بنا دکر میدان میں اتار گیا اور باقی رہی سہی کسر اس نے خود نکال دی،کبڈی کے کھلاڑی کو کرکٹ کے میدان میں اتار کر اٹیک باؤلنگ دے کر وسیم اکرم پلس کا لیبل لگا دیا، کپتان منصور اختروں کو جاوید میانداد کی جگہ لے آیا اور اب حال یہ ہے کہ پارٹی کے اندر لاواپک رہا ہے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہم حکومت چلانے میں میں بری طرح ہار رہے ہیں۔کپتان نے اقتدار کے شوق میں ناکام ٹیم کی قیادت سنبھال کر خود کو ناکام بنا لیا۔کپتان نہیں ہار رہا اس کے ساتھ ایک نسل ہار رہی ہے۔عباسی دور کے شاعر کی وہ خوبصورت رباعی یاد آگئی
” وہ سلطان کی طرح چل رہا تھا اور صد ہزار دل اس کے ساتھ اس طرح چل رہے تھے جیسے سلطا ن کے عقب میں سپاہ چل رہی ہو“
لیڈر اکیلا نہیں ہوتا نہ ہی اس اکیلے کی ناکامی ہوتی ہے،قوم کا ایک بڑا حصہ اس کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے، ایک قافلہ آگے بڑھ رہا ہوتا ہے اور کارواں رواں دواں ہوتا ہے، جس کی آنکھوں میں منزل کے خواب اور دلوں میں جواں جذبے موجزن ہوتے ہیں۔بڑھے چلو، چلے چلو، لازام ہے کہ ہم بھی دیکھیں ……کوئی روک سکے تو روک لو……افسوس قافلہ چند قدم بعد ہی تھکا ہارا دکھائی دینے لگا اور اس کے قدم خود رکنے لگے ہیں۔مانگے تانگے کے کھلاڑی پہلے ہاف میں ہی پھولی سانسوں کے ساتھ گررہے ہیں اور کچھ میدان سے فرار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔کاش خان صاحب نے اپنوں پر بھروسہ کیا ہوتا۔ فوزیہ قصوری، حامد خان اور جسٹس وجیہہ جیسے لوگوں کی قدر کی ہوتی تو آج فصلی بٹیرے انہیں یوں مذاق کا نشانہ نہ بنا رہے ہوتے۔جب اپنوں پر غیروں کو ترجیح دی جائے تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان پر چاروں طرف سے سنگ باری ہو رہی ہوتی ہے اور کوئی دفاع کے لئے آگے نہیں آتا۔عیسائی قوتوں نے الفانسو کی سربراہی میں اشبیلیہ اور قرطبہ کے فرمانروا ابو القاسم عبادالممعتمد علی اللہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، معتمد نے مراکش کے طاقتور قبائلی سردار یوسف بن تاشفین سے مدد چاہی تو اس کے مشیروں نے اسے باز رکھنے کی کوشش کی، جس پر معتمد نے تاریخی الفاظ کہے
” اونٹوں کا چرواہا بننا بھیڑیوں کا چرواہا بننے سے بہتر ہے۔“
کاش ایک بار خان صاحب بھی جن لوگوں کو چپڑاسی نہ رکھنے ،کرپٹ ، قاتل اور دہشت گرد کہتے رہے تھے ان کا چرواہا بننے سے معذرت کرلیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔اپنوں کا لیڈر بننا فصلی بٹیروں کا لیڈر بننے سے بہتر تھا۔اقتدار سمجھوتوں کی کرسی پر بیٹھ کر نہیں چل سکتا۔ لیڈر سمجھوتوں پر نہیں جیتے وہ اپنے اصولوں پر کسی طو ر بھی سمجھوتوں کو حاوی نہیں ہونے دیتے، تاریخ ساز لوگ آزاد ہوتے ہیں ان کا ویژن سمجھوتوں کا کفن پہن کر مجبوریوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہوتا۔اقتدار کی کرسی اور لیڈر کے ویژن کے درمیان اگرہر قیمت پر کرسی کی شدت غالب آجائے تو پھروقت بہت بھاری قیمت وصول کرتا ہے،جو اکثر ناکامی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔اب وقت حالات اور آفات کا رونا کام نہیں آئے گا،ناکام لوگوں کی ٹیم سے ناکامی ہی ملنی تھی،وقت،حالات اور آفات کا رونا بے سو د ہے۔عرب شاعر ابونواس نے کیسا کمال شعر کہا جس کا ترجمہ ہے……”جو شخص مٹے ہوئے نشانات پر کھڑا رو رہا ہو اسے کہو وہ بیٹھ بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا“۔
ناکامی ثبت ہوچکی،گڈگورنس کی قلعی کھل چکی،خان صاحب نے اس نظام کو بدلنے کے لئے صدائے حق بلند کی تھی ان کی اذان پر کروڑوں لوگوں نے لبیک کہا اور ان کی طرف چل پڑے، مگر خان صاحب نے نظام کو بدلنے کی بجائے خود کو ہی بدل کر سب کو ششدر کردیا۔اتنے سمجھوتے اتنے زیادہ انحراف شائد ہی تاریخ میں کسی لیڈر نے پہلے کئے ہوں۔اب لہجوں میں غرور کی جگہ التجائیں اور بلند و بانگ دعوؤں کی جگہ مجبوریوں کا رونا شروع ہو چکا۔مغرور لوگ شعلوں کی طرح ہوتے ہیں بھڑکتے ہیں،بجھتے ہیں اور راکھ ہوجاتے ہیں،جس نے دانشمند و مخلص دوستوں سے خود کو دور کر لیا اس نے خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو شریروں کے ہاتھ دے کر غلط راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔خان صاحب آپ کو کس نے کہا آپ مائنس ون ہو رہے ہے……یہ شور کہاں سے ابھرا ہے، سچ تو یہ ہے عمارت کی دیواروں سے جب سیمنٹ گرنے لگے اور ستون ہچکولے کھانے لگیں تو پھر اس کی خستہ حالی سے خود مکین ڈرنے لگتا ہے۔بیڈ گورنس اور آٹا، چینی،پٹرول سمیت بحران پہ بحران ہر طرف عجب تماشہ……مائنس ون کی یہ آواز خود آپ کو اپنے اندر سے سنائی دینے لگی ہے۔ ناکامی خود چیخنے لگی ہے۔غلط فیصلوں کا شور اب اندر سے بھی ہونے لگا ہے۔ وسیم اکرم پلس سلیم جعفر دکھائی دینے لگاہے۔خان صاحب نے اگر آپ نے جلد از جلد پنجاب پر کسی متحرک وزیراعلیٰ کو نہ لگایا تو آپ کے موجودہ لشکر کو دیکھ کر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ یہ لشکر بدترین شکست سے دوچار ہو کر رہے گا اور ہمارے نصیب میں ناکامی کی ایک اور کہانی دہرانا لکھا جاچکا۔ چلیں ایک کہانی اور سہی، لیکن دُکھ ہے اس میں بائیس سالہ جدوجہد کرنے والے لیڈر نے اپنے اصولوں کو کرسی پر قربان کر دیا۔