بانگ درا کے شاعر نے نگاہ سے دل تک کا راستہ طے کیا ہے، طلب و جستجو کی ہر راہ پر ٹھہرتا ہوا بالآخر خدائے قدوس کے آخری پیغام تک پہنچتا ہے

مصنف: جمیل اطہر قاضی
قسط:77
بانگ ِ درا کی پہلی نظم ہمالہ ہے اور آخری طلوع اسلام و غزلیات اور ظریفانہ رنگ اپنی الگ تخصیص رکھتے ہیں۔ بہر حال بانگ درا کے آغاز اور انتہا میں شاعر کے ذہنی ارتقاء اور فکری انقلاب کا ایک لطیف کنایہ اور واضح اشارہ موجود ہے۔ ہمالہ اور طلوع اسلام کے اس غیر ارادی تطابق سے قاری کو اولین جستجو یہی ہوتی ہے کہ بانگ درا کا مصنف کون کون سی ذہنی منزلوں سے گزرا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب خالقِ عالم کی تلاش ہوئی تو انہوں نے ستاروں میں، چاند میں، سورج میں اسے ڈھونڈا۔ جب پہلے مطمحِ نظر سے کوئی واضح تر اور مضبوط تر نقش سامنے آجاتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اُدھر متوجہ ہو جاتے اوربالآخر وہ نقش بھی کسی دوسرے نقش کے سامنے فروتر ثابت ہوتا اور یہ تمام مظاہر دیکھنے پرکھنے اور جانچنے کے بعد بالآخر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس خدا تک پہنچے جو نہ محدود ہے اور نہ نظر آتا ہے۔
بانگ ِ درا کے شاعر کا تخیل اور تصور سب سے پہلے ہمالہ سے متاثر ہوا۔ برِّصغیر کے شمال اور مشرق میں پھیلا ہوا وسیع سلسلہ کوہ جس کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور جس کی پنہائیاں حدِّ نظر میں نہیں آسکتیں شاعر نے اسے محبوب خیال قرار دیا۔ اس میں ہزار ہزار طرح سے جمالی دل ربا پیدا کیا۔ اس کا استحکام، رفعت، دیرینہ روزی، غیر فانی جوانی ہر چیز نے بانگ ِدرا کے شاعر کو متاثر کیا۔ اس کے دامن میں بہتے ہوئے چشمے، وادیوں میں منڈلاتا ہوا ابر ِ ہمالہ کی پہاڑ کی سعی خاموشی اور سکوت صاف و شفاف پانی کی ندیاں۔ ان کا نغمہ ریز ترنم، کہسار پر رنگ شفق اور پہاڑ کی ایک ایک چیز نے شاعر کے دامنِ دل کو کھینچا اور شاعر نے اسے جنت سے نکالے ہوئے انسان کا اولین مسکن قرار دے کر اس کے ساتھ اپنی محبت وابستہ کی۔
بانگ درا کے شاعر کو ابر کہسار ایک نئی کشش کے ساتھ نظر آتا ہے وہ ابر کودرافشاں اور دیدۂ امید کا حامل قرار دیتا ہے اور اسے چشمۂ کوہ کے سوزشِ قلز م پرندوں کے ترنم، سبزے کی زندگی اور پھولوں کے تبسم کا خالق قرار دیتا ہے۔ بانگ ِدراکا شاعر آفتاب کو دیکھتا ہے بلکہ آفتاب کے دیکھنے میں ………… کی بصارت کا ساتھ دیتا ہے اورتسلیم کرلیتا ہے کہ آفتاب ہی دنیا کے لئے زندگی اور ہر زندگی کا خالق ہے۔ اسے آفتاب لامکان محسوس ہوتا ہے اور بانگ ِ درا کا شاعر مرمیات سے محسوسات تک پہنچ گیا۔ ان پہاڑوں، وادیوں، ندی نالوں، سبز ہ و گلشن اور ان پر چمکنے والے سورج، چاند اور ستاروں کو شیرازہ بند کرکے اقبال نے وطن کے نام سے ایک محبوب تراشا اور اس وطن میں اسے بڑی خوب صورتی نظر آئی۔ اس نے اس سر زمین کو تاتار و حجاز، یونان و پارس، ترک و عرب اور مشرق و مغرب کے لئے کشش انگیز قرار دیا اور فخر سے اسے معبود شاعری بنایا اور دیوتا سمجھا۔
یہاں پہنچ کر شاعر کا احساس ان نظری سیاروں سے آگے بڑھتا ہے اور اب اس کی فکر کوجلا ملتی ہے۔ اب اس کا خیال و تصور ایک کش مکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کی غیر مطمئن روح کچھ ڈھونڈتی ہے۔ اب تک اس نے جو پایا ہے وہ منتہائے مقصود ثابت نہیں ہوتا۔ وہ گلِ رنگیں کو دیکھتا ہے تو یہ پھول اب اس کے لئے حسنِ تمام کا مظہر نہیں بنتا۔ گلِ رنگین اس کے لئے تلاشِ متصل کی ایک منزل اور توسنِ افلاک کے لئے خرام آموز ہے۔ شاعر اتنا کچھ دیکھنے کے بعد اپنے آپ کو بے خبر سمجھتا ہے۔ سر آئیزک نیوٹن کی طرح محسوس کرتا ہے کہ وہ ابھی تک گھونگوں اور سپیوں سے کھیلتا رہا ہے۔ ابھی حقائق کا اتھاہ اور بے کراں سمندر اس کے سامنے ہے۔ اس تمام حاصل کو وہ عہد طفلی کا حاصل قرار دیتا ہے۔ جب شورشِ زنجیرِ در میں اسے لطف آتا تھا جو کچھ اس نے دیکھا ہے اس کی حقیقت یہی تھی کہ آنکھ وقف ِ دید تھی لیکن بیان نہیں کرسکتا تھا۔ اس کا ذوقِ اشکبار اور بڑھتا ہے۔ اب دیکھنے کی منزل سے گزر کر ڈھونڈنے کی منزل آتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ دعا کرتا ہے۔ اس کی ہر جستجو کامیاب ہو بلکہ تمام دنیا کا اندھیرا اس کے دم سے دور ہو۔ یہ دعا وہ ہر بچے کی زبان سے کہلواتا ہے۔ شاعر کا تجسس اور استفسار ہر جگہ نمایاں ہے۔ اب شمع سے بھی شاعر ہی پوچھتا ہے کہ پروانہ تجھ پر کیوں مرتا ہے۔ اسے اپنے احساس کی عظمت کا بڑا قلق ہے اور روشنی ڈھونڈتا ہے، یہاں تک کہ اسے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے ساتھ اس روشنی کی تلاش میں ہم قدم ہے یہاں تک کہ پروانہ بھی ایک ننھا سا کیڑا بھی تمنائے روشنی میں جل رہا ہے۔ اس کی نظرِ طلب تڑپ بن جاتی ہے۔ وہ وصلِ حقیقی چاہتا ہے۔ موجد و ساحل کے اضطراب انگیز اور مہماتی وصل سے اب اسے تسکین نہیں ہوتی۔ اس کے تمام پہلے تصوراتِ محو ہو جاتے ہیں۔ اب اسے ساکت پہاڑ سے متجسس گلہری بہتر نظر آتی ہے۔ سورج کو دردِ استفہام سے ناواقف سمجھتا ہے۔ چاند سے،موج دریا سے اور ستارہ صبح سے پوچھتا ہے کہ اس کی اصل کیا ہے، یہاں تک کہ محفلِ عالم کی ہر چیز کا اصل کھوجنا چاہتا ہے۔ یہیں اسے سبق ملتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے باخبر ہو اور بانگ ِدرا کا شاعر پہلے ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ پھر اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر میں اپنے تسکین دل کا سامان تلاش کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مرئی نظاروں سے ادراک حاصل ہوا اور وہ ان دیکھے خدائے قدوس تک پہنچ گئے۔ بالکل اسی طرح بانگ درا کے شاعر نے نگاہ سے دل تک کا راستہ طے کیا ہے کہ وہ وسنگ جو حریم۔ موج و ساحل۔ ماہ و خورشید و انجم ہر منزل سے گزرتا ہے اور سوزو گداز۔ تب و تابِ طلب و جستجو کی ہر راہ پر ٹھہرتا ہوا بالآخر خدائے قدوس کے آخری پیغام تک پہنچتا ہے اور اس کے سکونِ دل کا مرکز اسلام بنتا ہے۔ بانگِ درا کا مسافر ہمالہ کے دامنوں سے چل کر طلوعِ اسلام کی پُر نور وادی میں پہنچتا ہے اور یہی وہ منزل ہے جو علامہ اقبال کے اس سفر کا نکتۂ آغاز ہے جو اسے ترجمانِ حقیقت اور شاعر مشرق بناتا ہے۔ یہ ارتقا ء ہنگامی یا لمحاتی نہیں۔ باقاعدہ غوروفکر اور طلب و تجسس کا حامل ہے اسی لئے اس پر حوادث و حالات کا ملمع نظرنہیں آتا۔ اور یہاں مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہے کہ یہ بانگِ درا کا مطالعہ بلکہ اس کے ایک رخ کا ہلکا سا مطالعہ ہے۔ بانگِ درا کے دوسرے بے شمار پہلوؤں پر بھی بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ اگر موقع ملا اور حالات نے اجازت دی تو انشاء اللہ کسی اور صحبت میں میں بارِ سماعت بنوں گا۔ اب اجازت چاہتا ہوں کہ اس عنوان کو بانگِ درا کا مطالعہ کی بجائے بانگِ درا کا ایک مطالعہ کہوں اور آپ سے رخصت ہو جاؤں۔ والسلام۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)