اعلیٰ تعلیم کے مسائل ،ایچ ای سی اور نئی حکومت
اعلیٰ تعلیم کے مسائل ،ایچ ای سی اور نئی حکومت

گزشتہ روز ایک محب وطن اور علم پسند دوست سے ملاقات ہوئی اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اورہائر ایجوکیشن کمیشن کامستقبل موضوع بحث رہا۔ درد مند دل رکھنے والے دوست نے کہا کہ گزشتہ عشرے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جو انقلابی کامیابیاں حاصل کیں، بالخصوص موجودہ چیئرمین نے جس متحرک کردار اور بے مثال غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میںاعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے لئے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ان کا تسلسل جاری رہنا چاہئے اوراس کا انحصار نئی حکومت اور میاں نواز شریف کی علم دوستی پر ہے ۔مَیں نے اپنے دوست کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میاں نواز شریف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی ایچ ای سی کی بقاءو استحکام کے لئے قابل قدر کردار ادا کیا تھا اور اب بھی کریں گے، میاں نوازشریف نے تجربے سے جو سیکھا ہے، اس کی روشنی میں ان کی حب الوطنی اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے کارپردازان کے لئے اطمینان و راحت کا باعث ہونی چاہیے، میرے دوست کا کہنا تھا کہ حکومتیں تبدیل ہونے کے بعد تمام اداروں میں اکھاڑ پچھاڑ کے بعد چوری کھانے والوں کی نامزدگیاں ہماری سیاسی روایت ہے ۔مَیں نے عرض کیا کہ اس بار ایسا نہیں ہو گا ،کیونکہ اب میاں صاحب بدلے بدلے نظر آرہے ہیں ۔
کسی ملک اور قوم کی ترقی میں اعلیٰ تعلیم کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور معیاری اعلیٰ تعلیم کے بغیر ملک و قوم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، کیونکہ افرادی قوت کی ترقی اور اداروں کی تعمیر کے بغیر خوشحالی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ تعلیمی عمل میں اعلیٰ معیار کو مرکزی اہمیت حاصل ہے ۔ میدان علم و تحقیق میں جو انقلابی تبدیلیاں عالمگیر سطح پر ظہور پذیر ہیں،ان سے مستفید ہونے کے لئے لازم ہے کہ قوم اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی ضروریات پوری کرے اور اعلیٰ تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائے۔ اعلیٰ تعلیم میں قومی سرمایہ کاری کبھی رائیگاں نہیں جاتی، بلکہ اس کا ثمر منافع کے ساتھ قوم و ملک کو ضرور ملتا ہے ۔اس کے برعکس اعلیٰ تعلیم کو نظر انداز کرنے پر بھاری قیمت بھی قوم ہی کو چکانا پڑتی ہے ۔
آج دنیا بھر میںمسابقت اور فضیلت کے لئے جدوجہد نے اعلیٰ تعلیم کو معاشرے میں منفرد حیثیت دی ہے ۔ عالمگیریت کے سبب یونیورسٹی سطح کی تعلیم کو دنیا کے نقشے میں نمایاں جگہ ملی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں عالمی معیار پر پوری اتریں۔ عالمی معیار سے مطابقت کے لئے ہماری یونیورسٹیوں کو تیزی سے تبدیل ہونے والی دنیا کے مسائل اور چیلنجوں ، معاشرے کی توقعات اور طلبہ کے روز افزوں تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہونا ضروری ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کسی بھی سماج میں ہمہ جہت ترقی و پیش رفت کے وسیع امکانات کی حامل ہوتی ہے ،چنانچہ اعلیٰ تعلیم کے نظام کو اس طرح فعال بنانا کہ وہ قومی تعمیرِ نو کے عمل میں تجدید ی کاوشوںکا علمبردار ثابت ہوترقی کی آرزو مند اقوام کی ترجیح رہا ہے، لیکن ہماری روایت اور تاریخ کی گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے ۔
تیز رفتار ترقی کے اس عہد میں پاکستان میں ہائر ایجوکیشن پر سخت دباﺅلمحہءفکریہ ہے ۔ عددی توسیع، اداروں کی ساخت میں تنوع اور مالی مسائل نے اعلیٰ تعلیم کے معیار کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے ۔گزشتہ عشرے میں وژنری قیادت کی رہنمائی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ثقافت کو بدلنے اور مثبت ترقی کے لئے قابل قدر اقدامات کئے۔ ایچ ای سی کی کاوشیں ثمر آور ہونے لگی تھیںکہ یہ مثالی ادارہ بد نظری کا شکار ہو گیا اور ایسا دکھائی دینے لگا کہ ڈاکٹر عطاءالرحمان کے بعد یہ ادارہ ختم ہو جائے گا،مگر بلا مبالغہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے ذاتیات و سیاسیات سے بالاتر ہو کر حقیقی اور محب وطن منتظم اعلیٰ کا کردار ادا کیا ۔ پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستگی کے باوجود انہوں نے پاکستانیت کے تقاضوں سے عہدہ برآہ ہونے کے لئے پارٹی بازی اور گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر جانبداری اور ایمانداری سے ایچ ای سی کا دفاع کیا اور مدبر منتظم کے طور پر کردار ادا کیا ، ایچ ای سی کے کردار کے لیے ہر مکتب فکر سے تعاون حاصل کیا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں جب اعلیٰ تعلیم کے کمیشن پر حکومتی وار کا چرچا عام ہوا توپاکستان مسلم لیگ (ن)،تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) سمیت تمام بڑی جماعتوں نے ان کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد بھی HEC نے غیر جانبداریت برقرار رکھی، مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ ایچ ای سی اور اعلیٰ تعلیم تا حال زیر عتاب ہیں اور ان کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان کے علمی حلقے پریشان ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے منشور میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری کا تذکرہ موجود ہے، ان کے علاوہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق)نے بھی ایچ ای سی اور اعلیٰ تعلیم کی منشور میں ضمانت دی ہے ،مگریہ عجیب تضاد ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، منصوبہ ساز اور فیصلہ ساز برملا کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی اور علم و تحقیق کی صدی ہے ،لیکن عملی طور پر ان کی ترجیحات کچھ اور نظر آتی ہیں ۔
اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت بن گئی ہے۔ میاں نواز شریف ، عمران خاں اور چودھری شجاعت حسین الیکشن سے پہلے ایچ ای سی کے حوالے سے انقلابی بیانات دیتے رہے ۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے بیانات اور ان جماعتوں کے انتخابی منشور بھی ان کی اسی سوچ کے مظہر ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف جیسی جماعتیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مستقبل کے حوالے سے کتنا پروگریسو اور علم دوست کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کے علم دوست حلقے میاں محمد نواز شریف سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی سنجیدہ اور متین پالیسیاں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لئے سنجیدہ کوشش کریں گی ۔روشن پاکستان کے نصب العین کے حصول کے سفر میں اعلیٰ تعلیم کا چراغ گل ہونے سے بچانا ضروری ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں، بالخصوص جامعات اور دانش گاہوں کو مضبوط و متحرک بنانے کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مستحکم اور فعال رکھنا بھی ضروری ہے اور ایچ ای سی کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے تتر بتر کرنے کی سوچ اور حکمت عملی کو روکنا قومی تقاضا ہے ۔
پاکستان میں تعلیم دوستوں ، محب وطن افراد اور دانشوروں کو یکجا ہو کر حکمرانوں سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ آئندہ بجٹ میں تعلیم کے لئے کم از کم جی ڈی پی کا چار فیصد ضرور مختص کریں اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے ایچ ای سی کے مثبت کردار اور مدبر قیادت سے استفادہ کریں ۔ اس ادارے کے کردار سے اختلاف ممکن ہے، اس میں بہتر ی کی گنجائش بھی موجودہے، اس کے لئے اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کو چیک اینڈ بیلنس کی نئی اصلاحات کے ساتھ مزید خود مختار بنا کر زیادہ کارآمد بنایا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر جاوید ایس لغاری نے اس کمیشن کے بچاﺅ کے لئے جو کردار ادا کیا ہے ،انہیں اس کی سزا نہیں بلکہ جزا ملنی چاہیے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا کمیشن ارباب اختیار کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ آج کی دنیا میں اعلیٰ تعلیم مستقل، مستحکم و پائیدار ترقی کے لئے سرمایہ کاری کی حیثیت رکھتی ہے ۔ نئی حکومت، بالخصوص میاں نواز شریف سے توقع اور امید ہے کہ وہ تعلیم و اعلیٰ تعلیم کی ناگفتہ بہ حالت زار اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معاملات پر قومی تقاضوں سے ہم آہنگ توجہ دیں گے ۔اعلیٰ تعلیم کے مسائل کا حل روشن مستقبل کی حقیقی امید ہے ۔ ٭