رمضان میں گداگروں کی یلغار

پچھلے دنوں ٹی وی چینل کے ایک ٹاک شو میں جب مخالف پارٹی کے تجزیہ کار نے حکمرانوں کو بھکاری یعنی گداگر قرار دیا تو دوسری پارٹی کے ترجمان نے اس پر خاصا برہمی کا اظہار کیا، حالانکہ کہنے والے کا مطلب، مقصد یہ تھا کہ ملک اور قوم کو معاشی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہیے اور ہمارے حکمرانوں کو قرضہ مانگنے یا پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کو ری شیڈول کرانے کیلئے بار بار دوسرے ممالک کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ آپس کی بات ہے کہ بھکاری کا لفظ ہے ہی ایسا کہ سن کر غصہ آتا ہے، لیکن کچھ بے عزتی پروف لوگ اور گروہ ایسے ہیں جن کو دوسروں کے سامنے دستِ طلب دراز کرتے ہوئے ذرا بھی لجاجت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے اصل پسے ہوئے طبقات، اصل حق داروں کا حق بھی مار رہے ہیں۔
آج کل رمضان المبارک چل رہا ہے اور مانگنے والوں کی بھی خوب موجیں لگی ہوئی ہیں۔ یوں تو ہمارے ملک میں گداگری کا دھندا کبھی ختم یا بند نہیں ہوا لیکن روزوں کا مہینہ شروع ہوتے ہی مانگنے والوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ لوگوں کا ایموشنل بلیک میل (Emotional Blackmail) کرنے کیلئے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ یوں تو آپ جہاں بھی دو چار منٹ کے لیے کھڑے ہو جائیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان دو منٹوں میں دو چار فقیر آ پ سے کچھ طلب نہ کریں، لیکن گداگروں کی پسندیدہ جگہ لاری اڈے اور ٹریفک سگنلز ہوتے ہیں۔یہ چوراہوں کے اطراف دم سادھے کھڑے رہتے ہیں اور جب بھی ٹریفک سگنل بند ہوتا ہے یہ تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طرف بڑھتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی ٹلتے ہیں۔ انہیں ٹریفک سگنل اس لیے پسند ہیں کہ یہاں انہیں زیادہ مشقت نہیں اٹھانا پڑتی، بڑی بڑی گاڑیوں والے امیر لوگ خود ہی ٹریفک سگنل پر آ جاتے ہیں۔ انہیں صرف دست طلب دراز کرنا ہوتا ہے۔ پھر یہ عوام کی نفسیات کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ کون سا روپ دھاریں گے تو زیادہ خیرات ملے گی۔ یہ معذور بن کر، نابینا بن کر، جسم پر مصنوعی طور پر زخم بنا کر پیسے مانگتے ہیں۔ بعض بھکاریوں نے بازو یا ٹانگ پر پٹی باندھی ہوتی ہے اور دیکھنے والے انہیں معذور سمجھ کر کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں۔ کچھ خواتین گود میں نوزائیدہ بچے اٹھائے مانگتی نظر آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گداگر خواتین یہ بچے کرایہ پر لیکر آتی ہیں اور ان بچوں کو انہوں نے کوئی نشہ آور چیز پلا رکھی ہوتی ہے کیونکہ جب بھی دیکھو یہ بچے سو ہی رہے ہوتے ہیں، کبھی ان کو جاگتے اور ماؤں کے ساتھ چلتے نہیں دیکھا گیا۔ وہ معصوم بچوں کو اس وجہ سے گود میں اٹھا کر بھیک مانگتے ہیں کہ لوگ بچوں پر ترس کھا کر زیادہ پیسے دیتے ہیں۔ پانچویں قسم کے بھکاری وہ مرد و خواتین ہوتے ہیں جن کی گود میں کوئی بچہ نہیں ہوتا لیکن یہ اس قدر ڈرامائی انداز سے بھیک مانگتے ہیں کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتا ہے اور لوگ انہیں بھیک دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بسوں میں مساجد اور مدرسوں کے نام پر پیسے مانگے جاتے ہیں۔ بہت سے بھکاری مساجد کے دروازں پر ہر نماز کے بعد یا جمعہ کی نماز کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور نماز پڑھ کر باہر نکلنے والوں سے پیسے مانگتے ہیں۔ کچھ مساجد کے اندر بھی چلے جاتے ہیں اور نماز ختم ہونے پر مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ کوئی آپ کے پاس آئے گا کہ میں فلاں شہر سے فلاں کام کیلئے یہاں آیا تھا لیکن میری جیب کسی نے کاٹ لی ہے، براہ مہربانی میری مدد کریں۔ کچھ لوگ کاندھوں پر کدال یا بیلچہ رکھے بھی مانگتے نظر آتے ہیں۔ پھر راستے میں گاڑیاں کھڑی کر کے پٹرول ختم ہونے اور پاس پیسے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر بھی لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ آپ واپسی کے کرایہ کے طور پر اسے دس بیس روپے تو دیں گے نہیں، سو پچاس دیں گے تو اس طرح آٹھ لوگ بھی اس کے ہتھے چڑھ جائیں تو اس کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ یوں وہ ایک دن میں کئی جگہوں کا چکر لگا کر اچھی خاصی رقم جمع کر لیتے ہیں۔ بعض خواتین گداگری کے ساتھ ساتھ بسوں، منی بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹس میں سوار ہو کر مسافر خواتین کے پرس، زیورات اور موبائل فون چوری کر لیتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں بھیک مانگنے والوں میں خواجہ سراؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہو گئی ہے۔ یہ اپنی لچھے دار باتوں اور چرب زبانی سے ہر روز اچھی خاصی رقم جمع کر لیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے سامنے آنے والی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 98 فیصد گھرانے جو رقم خیرات، صدقات اور عطیات کی صورت میں دیتے ہیں اس کی کل مالیت 240 ارب روپے بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری ہر سال مختلف معاشرتی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر دل کھول کر خیرات کرتے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 1998ء سے لیکر 2014ء تک سالانہ دی جانے والی خیرات کی رقم میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ 70 ارب روپے سے بڑھ کر 240 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ زیادہ تر خیرات براہ راست ضرورت مند رشتہ داروں، معذور افراد اور بھکاریوں کو دی جاتی ہے۔
کسی سماج یا معاشرے میں اتنی بڑی مقدار میں خیرات، صدقات اور عطیات دیے جاتے ہوں اسے ایک خوشحال معاشرہ ہونا چاہیے لیکن ہمارا معاشرہ خوشحال نہیں ہے اور میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو خیرات اور جو صدقات دیے جاتے ہیں ان کا زیادہ تر حصہ ان لوگوں کے پاس چلا جاتا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں، چوراہوں پر کھڑے سارے گداگر ہی غلط اور دو نمبر ہوتے ہیں ان میں سے یقینا کچھ ضرورت مند بھی ہوتے ہیں، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ضرورتمندوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی عوام سے پیسے بٹور رہے ہیں جن کا یہ استحقاق نہیں ہے۔ حکومت کو اس بارے میں کوئی واضح پالیسی اختیار کرنی چاہیے کہ گداگری معاشرے میں سدھار لانے اور غربت کو ختم کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر پاکستان میں گداگری کی ممانعت ہے تو انسداد گداگری کا محکمہ آخر کیا کر رہا ہے؟ کیا اس ادارے اور دوسرے اداروں کے افسر اور حکام بالا کبھی سڑکوں اور چوراہوں پر نہیں گئے کبھی انہوں نے جعلی گداگروں کے ہاتھوں عوام کا استحصال ہوتے نہیں دیکھا؟ 24 ارب روپے کی خیرات، صدقات اور عطیات سے ایک بڑی تبدیلی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کے ایک حصے کو کاروبار شروع کرایا جا سکتا ہے، ان کے مالی معاملات بہتر بنائے جا سکتے ہیں، غربت کم کی جا سکتی ہے، لیکن ان معاملات کے پوری طرح چینلائز نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ہمدردیوں اور خدا ترسیوں کا فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس پہلے ہی کافی پیسہ ہے۔