’چیک میٹ‘
بچپن کسے اچھا نہیں لگتا ماسوائے اُن کے جن کا بچپن عام بچوں جیسا نہ گزرا ہو لیکن جوانی ہر خاص و عام کی ہمیشہ یادگار ہی ہوا کرتی اور مرتے دم تک اِس کی یادیں دہرائی جاتی ہیں۔اِک زمانے میں حجام کی دکان ، چائے اور سگریٹ پان والوںکے کھوکھوں سمیت دکانوں کے باہر بنے تھڑے نوجوانوں کی پسندیدہ جگہیں ہوا کرتی تھیں تاہم پوش علاقوں کے رہنے والے لڑکے یا تو اِس شغل سے محروم رہ جاتے تھے یا ایسے علاقوں میں آ کر اپنی جوانیاں ’گالتے‘ تھے۔ اگرچہ بعض متوسط اور غریب علاقوں میں جوانی کا یہ شغل اب بھی قائم و دائم ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ہر علاقے میںبہر طور ایسا نہیں رہا اور اگر ہے تو ایسے افراد کی تعداد میں اچھی خاصی کمی آ چکی ہے کہ شاید اُنہیں اب معاش کے علاوہ کوئی ’فکر‘ کم ہی سوجھتی ہے سو بیٹھک کا وقت ہی کہاں۔۔۔
جوانی کی دہلیز سے ہوتے ہوئے تقریبا ً ہر نوجوان ذمہ دار شہری بننے کا سفر تقریباً اسی طرح طے کیا کرتا تھا۔ پھر یہ ذمہ دار شہری سر شام معززین علاقہ کے ڈرائنگ روم، لان یا پھر گھروں کے باہر پڑی بڑی سی چارپائی جنھیں عرف عام میں ’منجا ‘ کہا جاتا تھا، پر براجمان محلے، علاقے اور شہر سے لیکر قومی و بین الاقوامی سیاست اور مسائل پر سیر حاصل بحث کیا کرتے تھے۔ منجا اگرچہ سائز میں کافی بڑا ہوتا تھا لیکن پھر بھی اردگرد بنی چھوٹے تھڑے یا کرسیاں یا پھر موڑھے رکھ کر حقے کے کش لگاتے بزر گ ’نومولود ذمہ دار شہریوں ‘کی تربیت کیا کرتے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ سوشل سرکل اپنے گلی محلے میں ہونے والی ہر حرکت پر نظر رکھتا تھا اور جب بھی کوئی بچہ غلط حرکت کرتا تھا تو بچے کے گھر پہنچنے سے پہلے اُس کے والدین کو خبر ہو چکی ہوتی تھی۔ ایک نسل جاتی تھی اور ایک نسل آتی تھی ۔ یہ سسٹم توصدیوں سے چلا آ رہا تھا بس فرق صرف اتنا تھا کہ آسودہ حال یا پوش علاقوں کے امراءکا سٹائل ذرا سا مختلف تھا اوروہ اپنے اپنے سوشل سرکل میں کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر کبھی کسی کے گھرکھانے کی پر تکلف میز پر یا پھر کسی ریستوران میں ’گیٹ ٹوگیدر‘ کر لیا کرتے تھے۔ عام علاقوں کے ’منجے ‘ چاہے اُتنے نہیں رہے مگر امراءکی بیٹھکیں آج بھی اُسی زور شور سے جاری ہیں اوراِن کے صاحبزادے یا صاحبزادیوں کو اب کافی ہاﺅسز اور جدید چائے خانوں کی صورت میں ’ٹھاریں‘ میسر آ چکی ہیں۔
صدیوں سے چلاآ رہا یہ تربیتی سسٹم اب ٹوٹتا چلا جا رہا ہے اور نئی نسل اب بڑے بزرگوں کی محفلوں میں ہونے والی تربیت سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ بڑے بزرگوں کا یہ کردار اب سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے لے لیاہے جہاں بدقسمتی سے غلط بات کرنے پر ’بڑوںکی جھاڑ‘ کا اہتمام نہیں بلکہ معاملہ ہرچند اُلٹا ہی ہے ۔یہی حالات ہمارے سرکاری و نجی اداروں کے بھی ہیں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے وہاں کے ’مینیول‘ زمانے کے بڑے بزرگوں کو’کھڈے لائن ‘لگا دیا ہے اور اِس کا کریڈٹ بھی سرا سر اُنہیں کا ہے کیونکہ چاہے قوم ہو یا فرد، جو وقت کے ساتھ قدم نہیں ملاتا وہ یقینا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
آج کے صحافستان میں بھی بہت سے ایسے نئے مسائل اسی لیے جنم لے رہے ہیں کہ ایٹم بم سے زیادہ خطرناک میڈیا اور گلوبل ویلیج میں قائم ہوتی اِس نئی انفارمیشن سوسائٹی کے منفی و مثبت پہلوﺅں پر ’شدید ‘تحقیق کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کی تربیت نہیں کی جا رہی۔ وہ افراد ، ادارے اور اقوام جو اس بہاﺅ میں اپنا راستہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یقینا خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے کیونکہ نہ اُنہیں سوشل میڈیا کے بہاﺅ کی رفتار کا اندازہ ہے اور نہ ہی اس سمندر نما دریامیں جا بجا دھنسے پتھروں کی چھری سے تیز نوکوں ۔۔۔ ملکوں کے باڈرز ہوں چاہے گھروں کی چار دیواری ، اِس نے خاموشی سے گھر کے ہر عمر کے فرد تک براہ راست رسائی حاصل کر رکھی ہے پس اب اس پر بند باندھنے سے کام نہیں چلے گابلکہ اس کے استعمال کرنے والوں کی تربیت اُسی طرح ضروری ہے جیسے بچپن سے جوانی اور پھر جوانی سے ذمہ دار شہری بننے تک کا سفر بڑے بزرگ طے کرایا کرتے تھے ۔
جہاں گھروں کے بڑوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آج کی اس انفارمیشن سوسائٹی میں بڑے ہوتے اِن گلوبلائزڈ سوشل بچوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں وہیں حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ جیسے کبھی گزشتہ دہائیوں میں مختلف معاملات کی تربیت کے لیے بچوں کے تعلیمی نصاب میںقصے کہانیوں یا کورس کے مختلف مضامین کے ساتھ ساتھ ’قومی ٹی وی ‘پر بچوں کی دلچسپی پر مبنی مختلف پروگراموں کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی تربیت کی جاتی ویسے ہی اِن بچوں کی تربیت بھی اِنہیں میڈیمز کے ذریعے کی جائے کہ وہ اس میں بہہ جانے کی بجائے اِک دوسرے کی تربیت خود کرتے چلے جائیں۔
لیکن یہ اُسی صورت ممکن ہو گا کہ جب وہ تمام نا اہل ادارے جو دراصل اس تبدیلی کو سمجھنے اور پھر اس سے آنے والی تبدیلیوں کے ذمہ دار تھے اُن کی اپنی تربیت جنگی بنیادوں پرکی جائے۔ صدیوں تک اسلحے کے ساتھ جنگ کرنے والوں نے ہمیں اسلحے کی دوڑ میں شامل کر کے خود دنیا کی ہر باﺅنڈری پھلانگے اور توڑے بنا ہی زیر کر لی ۔ صحافستان کے ذمہ داران کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ آج کا میڈیا خصوصاً سوشل میڈیادراصل افراتفری کے اُس عفریت کو جنم دے رہا ہے کہ کسی طرف سے اُٹھنے والی اِک سوچی سمجھی ’ویل پلانڈ‘ دھاڑ سے سب کچھ تہہ و بالا کر کے رکھ سکتی ہے۔ تحقیق کی ضرورت نہیں بس تھوڑا سا غور ہی کر لو کہ کیسے دہائیوں پرمحیط بادشاہتیں عوام کے تیز بہاﺅ نے دنوں میں نہ صرف غرق کر دیں بلکہ سسٹم ایسے بری طرح سے ٹوٹا ہے کہ اب بن کے ہی نہیں دے رہا۔
وہ ادارے جو کسی واقع کے پیش آنے سے قبل تدارک کی جانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنی توجہ اپنے اصل کام کی طرف مرکوز کر ملک کے اندر و باہرہر طرف بچھی ریاستی بساط پر ’چیک میٹ‘ سے بچیں بھی اور بچائیں بھی کہ ادروں اور کمیونیٹیز کے درمیان اختیارات کی جنگ کا مقصد اگر اداروں کی تباہی کی طرف جا رہا ہو تو یقینا یہ قومی سلامتی کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عقل والوں کوبھی غور کرنا چاہئے کہ غلطی دراصل کس کی ہے جو ’چیک میٹ ‘ سے بچ نہیں سکے یا جس نے شکست دی۔
بہرحال ضرورت اس اَمر کی ہے کہ نہ صرف سوشل میڈیا پر اس طرح کے فورمز بنائے جائیں جہاں نئی نسل کی ہر وقت تربیت کی جاتی ہو بلکہ ایسے تحقیقی اداروں کی بھی اشد ضرورت ہے جو الیکٹرانک و سوشل میڈیا کی انتہائی سخت مانیٹرنگ کر کے ہر ایک پر صحیح اور غلط روز روشن کی طرح واضح کریں۔ اُس سب سے زیادہ ضروری یہ بھی ہے کہ میڈیا صحافتی معیار کو اپناتے ہوئے اُنہیں لوگوں کو مختلف امور اور اختیارات سونپیںجنہیں اُس کا کم از کم ایک دہائی کا تجربہ ضرور ہو کہ بندر ’من چاہا تماشہ‘ تو کر سکتے ہیں لیکن وہ سوشل ذمہ داری جیسی اصلاحات سے نہ تو واقف ہیںاور نہ ہی اُس کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ تقریباً دس سال کی اس چھوٹی سکرین پر سٹیج ڈراموں میں لگائی جانے والی تھرڈ کلاس جگتوں کے معیار کی بحث ان قومی سطح کے میڈیا ہاﺅسز کو یقینا زیب نہیں دیتی۔ ریٹنگ کی فکر میں مبتلا افراد کے لیے بھی نسخہ آزمودہ یہی ہے کہ ناظرین کی تربیت دلائل کے ذریعے کر کے ریٹنگ لی جائے کیونکہ سماجی ذمہ داریوں سے نا آشنا بندروں کا تماشہ پر کشش توضرور ہوتا ہے لیکن اُس میں کتنی ہی ’جدت ‘ کیوں نہ آ جائے وہ دیر پا نہیں ہوسکتا کیونکہ تماش بین بہت جلدایک ہی طرح کے اور ہر وقت کے تماشے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔
رائج الوقت سے بھی تیزی سے ترقی کرتی آج کی دنیا میں برق رفتاری کے ساتھ ساتھ ہر لمحے تبدیل ہوتی ’قومی اقدار ‘کوسمجھنے اور کنٹرول میں رکھنے کے لیے اتنی ہی تیزی سے سوچنے ، سمجھنے اورفیصلے کرنے والے پیشہ ور انہ ماہروں کی ضرورت ہے ۔ دہائیوں پرانے انداز و اطوار کے ساتھ چلنے والی وزارت اطلاعات کو رینگنے والے سسٹم کی بجائے نہ صرف اب ’فارمولا ریس‘ کی طرز کے برق رفتار سسٹم کے ساتھ تبدیل کیا جائے بلکہ اُس کے دائرہ کار کو بھی ترقی یافتہ ممالک میں بنے انتہائی طاقتور اور قومی پالیسیوں پراثر انداز ہو سکنے والے تھنک ٹینکس کے برابر لایا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی واقع کی وقوع پذیری سے پہلے اطلاعات فراہم کرنے والے ذمہ داران کے ساتھ مل کر قوم کو کسی انتہائی شکست سے دو چار ہو نے سے بچایا جا سکے۔ مت بھولو کہ شکست کے بعد ’بین ‘کرنے والوں کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو شکست کو فتح میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔