پاکستان، دہشت گردی اور اقوام عالم

پاکستان، دہشت گردی اور اقوام عالم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                موجودہ حکومت دہشت گردی کے بارے میں بیرون ملک اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے امریکہ اور برطانیہ کے دورے کئے ہیں۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم سے ملاقاتیں کی ہیں، لیکن ان ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم پاکستان کو کہنا پڑا کہ ”ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے“۔دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان اور اقوام متحدہ کے نقطہ نظر میں تفاوت کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا اقوام عالم پاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں گی؟ نقطہ نظر کے اِن اختلافات کے کیا نقصانات ہیں اور اس صورت حال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ چند سوالات ہیں، جن کا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے۔
دہشت گردی کا مسئلہ نیا نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان دنیا میں پہلا ملک ہے، جو دہشت گردی کا شکار ہے.... گو کہ دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن پانچ دہائیوں میں جدید دنیا کو جس دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے،اس کی غفلت کی کئی وجوہات سامنے آتی رہی ہیں۔ دہشت گردی کی نوعیت تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے بارے میں عالمی سوچ بھی تبدیل ہوتی رہی ہے۔ فلسطین کی آزادی کی تحریک کو شروع شروع میں دہشت گردی کی تحریک ہی سمجھا جاتا تھا اور جب تک پی ایل او پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا رہا، اسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، لیکن یاسر عرفات کی قیادت میں پی ایل نے پُرامن جدوجہد کا آغاز کیا تو اسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ گو کہ فلسطینیوں کو ہنوز تمام حقوق حاصل نہیں ہو سکے، لیکن پھر بھی اس پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں ایک فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آ گئی.... دہشت گردی کے آغاز میں عالمی سطح پر ایک نقطہ ¿ نظر یہ بھی پایا جاتا تھا کہ دہشت گردی کی وجوہات تلاش کی جائیں۔ دہشت گردی کے اسباب کا سدباب کر دیا جائے، تو دہشت گردی کا مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا۔
جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو کچھ حلقوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں پر مظالم کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عالمی سطح پر زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی حقوق تلف کئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو تو اسے فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہئے، لیکن اس نقطہ نظر کو نہ امریکہ نے اہمیت دی اور نہ اسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ امریکہ نے طاقت کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کا اعلان کیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر میں تباہی مچا دی۔ اِن دنوں عالمی سطح پر دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو، ہائی جیکنگ ہو یا دہشت گرد اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں، تو دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کے مطالبات پورے نہ کئے جائیں تاکہ دوسرے لوگوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لئے دہشت گردی کی ترغیب حاصل نہ ہو۔
پاکستان کو بھی مختلف ادوار میں دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے جو تنظیم بنائی تھی، اس نے طیارہ اغوا کیا اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں بھی ملوث پائی گئی، لیکن پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے ان واقعات کی مذمت کی اور ان واقعات کے حوالے سے اپنی نفرت کا اظہار کیا، حالانکہ اُس وقت بھی دلیل دی جا سکتی تھی کہ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کو غلط پھانسی دی گئی تھی، اس لئے دہشت گردی کا جواز موجود ہے۔ اس صورت حال کے برعکس اب پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اس کا جواز ثابت کرنے کے لئے مختلف دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد خود تیار کئے، کبھی کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی ڈرون حملوں کا نتیجہ ہے، اس کے علاوہ دہشت گردی کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں، جبکہ عوامی سطح پر دہشت گردی کے بارے میں سوچ اس سوچ سے قطعی مختلف ہے۔
اقوام عالم دہشت گردی کو صرف دہشت گردی کے تناظر میں دیکھتی ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہیں۔ کیا امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے سے پہلے دہشت گردی کے اسباب تلاش کرنے اور اُن کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی؟....عالمی سطح پر دہشت گردی کو صرف دہشت گردی ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے اسباب وغیرہ کا بعد میں جائزہ لیا جاتا ہے، کیونکہ اقوام عالم میں یہ سوچ موجود ہے کہ دہشت گردی کے اسباب کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہے۔ عالمی سطح پر سیاسی زیادتیوں کا سو فیصد خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس احساس کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا کہ ظلم اور ناانصافی ختم ہو چکی، اس لئے دہشت گردی کے اسباب ہمیشہ موجود رہیں گے۔
 ان اسباب کے خاتمے کی طویل المیعاد منصوبہ بندی ہو چکی ہے، لیکن فوری اقدامات کے طور پر ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور دہشت گردی کے مسئلے سے صرفِ نظر کیا گیا تو اس سے دہشت گردی کی حوصلہ افزئی ہوتی ہے اور دہشت گردی میں اضافے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ یہ سوچ تو عالمی سطح پر پائی جاتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ہمارے کچھ سیاسی لیڈر دہشت گردی کے اسباب پر زیادہ توجہ دیتے رہے ہیں،جبکہ دہشت گردی کو ردعمل کے طور پر تقریباً تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں وطن کا دفاع کرنے اور اپنی جانیں نثار کرنے والوں کی قربانیوں کی اہمیت کو بھی کم کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس میں اس رجحان کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ دنیا کے دو سو کے قریب ممالک ہیں اور ان میں مسلم ممالک کی افواج موجود ہیں۔ یہ افواج ملک کا دفاع کرتی ہیں۔ تمام ممالک کے عوام اپنی افواج کی قربانیوں کو ایک جیسی اہمیت دیتے ہیں۔ الفاظ کا چناﺅ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی قدرو منزلت تقریباً ایک جیسی ہے۔
اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے والوں کو حوصلہ ملتا ہے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ اور پُرامن مقصد کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں وطن پر جان قربان کرنے والوں کی یادگاریں تعمیر کی جاتی ہیں۔ انہیں مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور ان کی قربانیوں کو ملکی تاریخ میں اہم مقام دیا جاتا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے بدقسمت ملک ہے کہ اس میں رہنے والے کچھ افراد فوج کی قربانیوں کی قدرو منزلت کو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے اور اس کے ذریعے ملک کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ آپ سیاسی حکومت سے اختلاف ضرور کریں، اس کے فیصلوں پر بھی تنقید کریں، لیکن ملک کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی قربانیوں کی اہمیت کو اگر آپ کم کریں گے تو سوچنا پڑے گا کہ آپ کی ہمدردیاں دشمن کے ساتھ تو نہیں اور آپ حب الوطنی کے کس درجے پرفائز ہیں۔
وہ قوم کتنی بدقسمت ہے، جس کے شہداءکے لواحقین کو ٹی وی چینلوں پر آ کر ملک کے شہداءکا کیس پیش کرنا پڑے۔ کیا یہ ایک اندھی اور بہری قوم ہے، اسے اپنے شہداءکی قربانیاں بھی نظر نہیں آتیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم یا فرد کو سزا دیتے ہیں تو اس کی عقل اور سوچنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے، کہیں ہمارے ساتھ بھی تو ایسا ہی نہیں ہو رہا؟ ہماری سوسائٹی کے ایک حصے کو نہ ہمارے شہداءنظر آتے ہیں اور نہ اُن کی قربانیوں کو سمجھ پا رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں کیا پاکستانی ایک قوم کہلانے کے بھی مستحق ہیں۔ ہمارے جیسے رویے اور سوچ دنیا بھر کے کسی ملک میں موجود نہیں۔ جب تک ہمارے ان رویوں کا خاتمہ نہیں ہو گا، عالمی سطح پر ہمارے موقف کو سمجھا نہیں جا سکے گا اور نہ ہی ہم دہشت گردی کا خاتمہ کر سکیں گے۔    ٭

مزید :

کالم -