کچھ توقف کے بعد سلطان قلعہ مہابن کی طرف متوجہ ہوا۔ وہاں کا راجہ کل چند تھا۔ وہ کثرت مال جال اور مملکت پر بڑا مغرور تھا۔ بڑے بڑے راجہ اُس سے لڑتے ہوئے ڈرتے تھے اُس کے پاس ایسے مضبوط قلعے تھے کہ کبھی اُن کو زمانہ کے ساتھ سے آسیب نہیں پہنچا تھا وہ اپنے لشکر کو ایک جنگل میں لے گیا کہ اُس میں درخت ایسے گھنے تھے کہ نہ دھوپ جاسکتی تھی نہ ہوا۔جب سلطان وہاں پہنچا تو اُس کا لشکر جنگل میں اس طرح گھس گیا جیسے بالوں میں کنگھی جاتی ہے اور قلعہ کی راہ دریافت کرلی۔ سخت لڑائیاں ہوئیں مگر ہندوﺅں کو ہر جگہ شکست ہوئی۔ بہت سے سپاہی اُن کے قتل ہوئے اور کچھ جمنا کے پار چلے گئے۔ غرض اس طرح پچاس ہزار ہندو عرصہ فنا اور ورطہ عنا میں پڑے ۔ کل چند نے خنجر کھینچ کر پہلے اپنی بیوی کو مارا اور پھر اپنا سینہ چاک کیا۔ سلطان کو ایک سو اٹھاون ہاتھی ہاتھ آئے اور بہت سی غنیمت تھی۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب سلطان کو کل چند کی مہم سے فراغت ہوئی تو وہ متھرا میں گیا۔ وہاں عمارتیں دیکھیں جن کو یہاں کے لوگ کہتے تھے کہ وہ آدمیوں نے نہیں بلکہ دیوتاﺅں نے بتائی ہیں۔ وہاں کی عادتیں بھی ایسی دیکھیں جو عاداتِ جاریہ کے خلاف تھیں اور اُن کا یقین مشاہدہ ہی سے آسکتا ہے۔ شہر کی فیصل سنگ خارا کی بنی ہوئی تھی۔ اُس کے دو دروازے جمنا کے کنارے کی طرف ایسے مضبوط بنے ہوئے تھے کہ پانی سے اُن کو آسیب نہیں پہنچ سکتا تھا۔ شہر کے دونوں طرف ہزار قصر تھے اور ان میں بت خانے تھے اور وہ سر سے پاﺅں تک لوہے کی میخوں سے مضبوط کئے گئے تھے۔ یہ سب عمارتیں گچ کی بنی ہوئی تھیں۔ سب مندورں سے بڑے شہر کے درمیان میں ایک مندر عظیم الشان و رفیع البنا ن تھا کہ نہ تواس کا تو بیان جا سکتا ہے نہ نقشہ کھچ سکتا ہے۔ سلطان نے شرفاءغزنی کو اس عمارت کی نسبت لکھا ہے کہ اگر ہزار دفعہ ہزار دینار خرچ کئے جائیں اور دوسو برس تک چابک دست کا ریگر و دستکار بنائیں تو بھی ایسی عمارت نہیں بن سکتی۔ بتوں میں ہر ایک کی آنکھوں میں باقوت جڑے ہوئے تھے۔ ان یاقوتوں سے ہر ایک یاقوت کی قیمت پچاس ہزار دینار سے کم نہ ہوگی۔ ایک بت کی آنکھیں صاف و چمکدار یاقوت ارزق کی تھیں۔ اس کا وزن ساڑھے چار سو مثقال تھا۔ ایک بت کے دو پاﺅں سونے کے وزن میں چار ہزار چار سو مثقال کے تھے۔ان بتوں میں کل سونا وزن میں اٹھانوے ہزار تین سو مثقال تھا۔ چاندی کے بت دو سو تھے مگر ان کا وزن بغیر توڑنے کے معلوم نہیں ہو سکتا تھا وہ ترازو میں نہیں رکھے جا سکتے تھے۔سلطان نے خکم دے دیا کہ سارے بتخانے نقطہءآگ سے جلا دیے جائیں۔حالانکہ ان کو جلانے سے توڑے بغیر عمارتوں کا نقصان بہت ہوا ہوگا۔ بعض مو¾رخ لکھتے ہیں کہ سلطان نے بعض مندروں کو حسانت کے سبب سے نہ توڑایا حصانت کے سبب سے نہ توڑ سکا۔ بعد اس کے سلطان نے قنوج(فتح قنوج) کی طرف کوچ کیا۔ قنوج تصحیف سے فتوج ہونا ہے‘یہ فال نیک پہلے سے موجود تھی۔ سلطان نے اپنے لشکر کا ایک حصّہ پیچھے چھوڑا اور تھوڑی جے پال راجہ سے لڑنے کے لئے لے گیا۔ راجہ کے ساتھ بھی تھوڑے سپائی تھے اور وہ اپنے کسی امیر کے پاس جانے کو تھا۔ اس ملک میں سلطان نے جس قلعہ کو دیکھا اُس کو گرا کر زمین کے برابر کیا۔ یہاں کے باشندوں نے کیا اسلام قبول کیا یاتلوار لیکر لڑنے کو کھڑے ہوئے۔ بیشمار قیدی اور غنیمت سلطان کو ہاتھ گلی۔8شعبان 408ھ،1017ءکو سلطان کے قریب پنہچنے کی خبر سن کر راجہ جے پال گنگا پار بھاگ گیا۔ قنوج کی فیصلوں میں سلطان داخل ہوا تو اس میں سات قلعے جدا جدا بنے ہوئے تھے اور اُس کے نیچے گنگا بہتی تھی۔ قنوج میں دس ہزار بتخانے تھے۔ جن کو ہندو کہتے تھے کہ دو دو تین تین پزار برس گزرے ہیں کہ ہمارے باپ دادا نے بنائے تھے۔ سلطان نے ایک بھاگ گئے یا پھر قتل و اسیر ہوگئے۔
قنوج کی تعریف ہندو مسلمان دونوں کرتے ہیں مگر اس کی وجہ کوئی نہیں معلوم ہوتی کہ یہ شہر کیوں دولت سے مالا مال اور باشان و شکوہ گنا جاتا تھا۔ نہ تو وہاں کے راجہ کا ملک وسیع تھا کہ ہندوستان میں کسی اور راجہ کا نہ ہو۔نہ اُس کی حکومت اور راجاﺅں سے زیادہ تھی۔ اس زمانہ میں قنوج کے مو¾رخ یہ بیان کرتے ہیں کہ اُس کی شہر پناہ پندرہ کوس کے گردے میں تھی۔تیس ہزار قبولیوں کی دکانیں تھیں۔راجہ کے پاس پانچ لاکھ پیادے تھے۔ تیس ہزار سوار تھے۔ اسی ہزار زرہ پوش تھے۔ اصل حال معلوم ہونا دشوار ہے۔ مگر ان مو¾رخوں کے بیان میں مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ قنوج کی خواہ پہلے شان کچھ اور ہو۔ مگر اب تو وہ قصبہ کہنہ ہے۔ البتہ اس کے گرد عمارات کے کھنڈر باقی ہیں جو اربابِ بصیرت کو عبرت دلاتے ہیں۔ اب اوپر جو بیان قنوج کی فتح کا لکھا ہے وہ تاریخِ یمینی سے لکھا ہے۔ اور تاریخوں میں یہ لکھا ہے کہ قنوج کا راجہ کنور راے سلطان کے لشکر کی عظمت اور شوکت دیکھ کر دنگ رہ گیا اور سوائے اس کے کچھ بن نہ پڑی کہ رومال سے ہاتھ باندہ کر مع اپنے اہل و عیال کے سلطان کے حضور میں حاضر ہوا۔ سلطان نے اُس پر بہت لطف و کرم کیا اور کسی طرح کی اذیت نہیں پہنچائی‘خود تین روز تک مہمان رکھا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر کوئی دشمن تم کو ستائے گا تو ہم خود کر تمہاری مدد کرینگے۔ چنانچہ اس نے وعدہ کا ایفا بھی کیا۔
پھر سلطان منج دے کی طرف متوجہ ہوا‘یہ برہمنوں کا قلعہ مشہور تھا۔ اس کے باشندے شتر بے مہار تھے۔ وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے مگر جب مقابلہ نہ کر سکے اور اُن کو یہ بھی یقین تھا کہ مسلمان ہم کو جیتانہ چھوڑیں گے تو وہ فصیلوں پر سے کود کود کر بھاگنے لگے مگر اس طرف کودنے میں پاش پاش ہوکر مر گئے۔
یہ شہر منج دے پرانا شہر منجہاﺅں (منجم کی فتح)معلوم ہوتا ہے جس کے کھنڈر کانپور سے جنوب میں دس میل کے فاصلہ پر پڑے ہیں‘وہ قنوجی برہمنوں کا مرکز ہے۔
پھر سلطان قلعہ آسی یا اسونی کی طرف متوجہ ہوا یہاں کا حاکم چنڈیل بھور تھا۔ وہ ہندوﺅں کے امیروں اور سپہ سالاروں میں سے تھا۔ اور ہمیشہ فتح پاتا تھا۔ اس قلعہ کے گرد گھنا جنگل تھا اور اس میں سانپ بھرے ہوئے تھے۔ جن پر کوئی منتر نہ چلتا تھا اور ایسا اندھیرا رہتا تھا کہ چاندنی اس میں دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بڑی چوڑی اور گہری خندق قلعہ کے گرد تھی۔ چنڈیل بھور نے جب سلطان کے آگے بڑھنے کی خبر سنی تو اس کے دل میں بڑا ہول اُٹھا اس نے جان لیا کہ موت منہ کھولے میری طرف آ رہی ہے۔ اس لئے وہ بھاگا۔ سلطان نے اُس کے پانچوں قلعوں کے منہدم کرنے کا حکم دیا۔انہیں کے ملبے کے نیچے باشندے دبے رہ گئے۔ سپاہی قتل اور اسیر ہوئے۔ ان کا مال اسباب ہوٹا گیا۔ یہ قلعہ اسونی گنگا کے گوشہ شمالی مشرق میں فتح پور سے دس میل پر ہے۔ یہ بہت پرانا شہر ہے اس کو سونی کمار نے(جو سورج کا بیٹا تھا)بنایا تھا اُس نے یہاں بلدان کیا اور اس شہر کو اپنے نام پر آباد کیا تھا۔
جب سلطان نے سنا کہ چنڈیل بھاگ گیا تو اُس کو افسوس ہوا اور وہ قلعہ شروا کی طرف چلا۔ یہاں کا راجہ چندر رائے تھا‘ہندوﺅں میں بڑے رتبے کا راجہ تھا۔ پور جے پال سے ہمیشہ اُس کی لڑائی رہتی تھی اور کشت و خون ہوتا تھا جے پال نے اپنے پرانے دشمن کی بیٹی سے اپنے بیٹے کی شادی کا بیغام بھیجا کہ اس رشتہ مندی کے سبب سے ہمیشہ کیئے رشتہ اتحاد قائم ہوگا۔ اس نے اپنے بیٹے کو بیاہنے کیئے رائے چند کے پاس بھیجا۔ رائے چند نے اُس کے بیٹے کو قید کرلیا اور اُس کے باپ کے سبب سے جو اُس کے نقصان ہوئے تھے اُن کا معاوضہ چاہا۔ پس اب پور جی پال مجبُور تھا کہ رائے چند کے قلعہ اور ملک پر حملہ نہیں کر سکتا تھا ۔ اپنے بیٹے کو بھی نہیں چُھڑا سکتا تھا۔ غرض ان دونوں میں چھیڑ چھاڑ ہمیشہ رہتی تھی کہ سلطان محمود غزنوی اس ملک میں آگیا۔ پور جی پال تو راجہ بھوج چند کے پاس جاکر چھپ گیا مگر چند راجہ سلطان سے لڑنے لیئے آمادہ ہوا۔ اس اثناءمیں بھیم پال نے ایک خط اُس کو لکھا کہ سلطان محمود غزنوی کا حال ہندوستان کے راجاﺅں کا سا نہیں ہے۔ وہ ہندوﺅں کا پیشوا نہیں ہے اُس کے باپ کے نام سے فوجیں بھاگتی ہیں بہتر ہے کہ اس سے صلح کی جائے اگر تم اس سے لڑو گے تو پچھتاﺅ گے تمہیں اختیار ہے۔ اگر تم اپنی سلامتی چاہتے ہو تو کہیں چھپ جاﺅ۔ چندر رائے نے بھیم پال کی صلاح کو مان لیا وہ اپنے ہاتھیوں اور خزانوں کو لیکر پہاڑوں میں جا چھپا۔ اس صلاح ورائے بتانے کاسبب یہ تھا کہ کہیں وہ سلطان کے دام میں ایسا نہ پھنس جائے کہ وہ مسلمان ہو جائے‘جیسے کہ بھیم پال کے رشتہ دار مسلمان ہوگئے تھے۔ سلطان نے قلعہ شروا کو فتح کرلیا۔ مگر اس کا اصل مطلب یہ تھا کہ چند رائے کو گرفتار کرے اس لئے وہ اس کی تلاش میں پندرہ فرلانگ ایسے جنگل میں چلا جس کے کانٹوں سے اُس کے لشکر کے آدمی زخمی ہوئے۔ آخر کو اُس نے 25شعبان410ھ(6جنوری1019ئ)کو دشمن کو جالیا۔ سلطان نے اپنے دشمنوں پر حملہ کرکے اُن کو قتل کیا اور تین دن تک مردوں کی تلاشی۔ بہت سے ہاتھی گرفتار کئے۔ ایک ہاتھی جو اس راجہ کا مشہور تھا‘وہ خود سلطان کی طرف چلا گیا۔ جس کا نام خدا داد رکھا گیا تمام غنیمت تین ہزار درہم کا مال غنیمت ہاتھ لگا اور قیدی اتنے ہاتھ لگے کہ دو سے لیکر دس درہم تک ایک قیدی فروخت ہوتا تھا۔یہ قیدی غزنی کو روانہ ہوئے۔ دور دور سے سوداگر اُن کے خریدنے کو آئے۔ سارا ماوراءالنہر، عراق، خراسان ان ہندی غلاموں سے بھر گیا۔ گورے‘کالے‘امیر‘غریب سب غلامی میں آکر برابر ہوگئے۔ یہ سرواوہ،سیون راہی جو کین ندی کے کنارے پر کالنجر اور باندہ کے درمیان واقع ہے یا سر سواگدہ جو بھونج ندی کے کنارہ پر کوچ سے کچھ فاصلہ پر ہے۔ جن پہاڑوں میں راجہ چند رائے جاکر چھپا تھا سہ بندے لکھنڈ کے پہاڑوں کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتے کیونکہ جب سلطان محمود غزنوی 8شعبان کو قنوج میں ہو اور 25 شعبان کو ان پہاڑوں میں آگیا ہو تو سوار ان کے اور پہاڑ نہیں ہو سکتے۔ سر سواگڈھ بند یلکھنڈ کے راجاﺅں کی تاریخ میں بڑا مشہور مقام ہے اور دو برس بعد چندو بھاٹ نے پرتھی راج دہلی کے راجہ کی لڑائیوں میں اس قلعہ کا ذکر کیا ہے کہ اُس کی حفاظت میں بہت سے راجہ مارے گئے۔
412ھ میں سلطان نے کشمیر کا قصد کیا۔ کوہ لوٹ کا محاصرہ کیا۔ ایک مہینہ اس میں صرف کیا مگر قلعہ کو ایسا مستحکم و بلند لوہا لاٹھ پایا کہ اُس کا فتح کرنا اپنے احاطہ قدرت سے باہر دیکھا۔ یہاں سے لاہور کی طرف گیا۔ مگر لشکر کو جو انبار اطراف میں تخت و تاراج کیلئے بھیجا۔ بہت مال و دولت ہاتھ لگی چونکہ جیپال کا پوتا ضعیف ہوگیا تھا اور اجمیر کے راجہ کے پاس بھاگ گیا تھا۔ اس لئے سلطان شہر لاہور پر قابض ہوا اور اپنے امراے معتمد میں سے ایک کو صوبہ پنجاب حوالہ کیا اور اُس کے اضلاع میں اپنے عامل صاحب تدبیر مقرر کئے۔ باج و تاراج کی جگہ ملک گیری اختیار کی‘ایک لشکر یہاں متعین کیا اور اس ملک میں اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ اول بہار میں وہ غزنی چلا گیا۔ پہلی دفعہ تھی کہ دریائے اٹک کے جانب شرق میں لشکر اسلام نے سکونت اختیار کی پھر یہیں ہندوستان میں سلطنت اسلامیہ کی بنیاد تھی۔
سلطان نے آپ جیحوں سے عبور کیا۔ماوراءالنہر کے سرداروں نے اس کا استقبال کیا۔ ہر ایک نے اپنے مقدور کے موافق پیشکش دی۔یوسف قدر خاں کہ ترکستان کا بادشاہ تھا‘استقبال کے لئے آیا۔ اس میں دوستانہ ملاقات ہوئی‘جشنِ شاہانہ بڑی تیاریوں سے ہوئے۔تحفہ تحائف باہم لئے دیئے گئے۔ علی تگین کو جب خبر ہوئی تو وہ بھاگ گیا۔ سلطان نے اُس کو گرفتار کرکے ہندوستان کے کسی قلعہ میں محبُوس کیا۔
کنور رائے راجہ قنوج اور سلطان کے باہم عہد ہو چکا تھا کہ اگر کوئی راجہ اس کو ستائے گا تو وہ اس کی امداد کرے گا اب کالنجر کے راجہ نندرائے نے اور راجاﺅں کو اپنے ساتھ لیکر قنوج کے راجہ کو دبانا چاہا۔ اس راجہ کی اس حرکت سے کہ محمود غزنوی کی اُس نے اطاعت کرلی تھی‘سب راجہ متنفر ہوگئے اور اس پر لعنت ملامت کرتے تھے۔جب یہ خبر سلطان محمود غزنوی کو پنہچی تو وہ راجہ کالنجر سے لڑنے کے لئے چلا۔وسط ہند کی وہ پہلے سیر کر چکا تھا مگر اُس کے آنے سے پہلے ہی راجہ کالنجر نے قنوج کے راجہ کا کام تمام کر دیا۔
غزنی سے جب فوج سلطان لیکر آتا تھا تو راجہ جے پال دوم جس کو پور جے پال فارسی کتابوں میں لکھا ہے۔ لشکر سلطانی کا دریائے جمن پر سدراہ ہوا۔ راجہ انند پال کا بیٹا ہمیشہ سلطان کی اطاعت کیا کرتا تھا مگر شامتِ اعمال جو آئی تو راجہ کالنجر کا طرفدار ہوگیا۔اس دریا کی طغیانی لشکر سلطانی کے عبور کی مانع ہوئی مگر آٹھ امیر دریا سے پار اُتر گئے اور راجہ جے پال کے پوتے کو شکست دی ملک کو تخت و تاراج کیا اور بُت خانوں کو لوٹا۔ غرض وہاں نند رائے کے ملک میں سلطان آیا۔ اس راجہ نے بھی لڑائی کے ارادہ سے بڑا لشکر جمع کیا تھا۔چھتیس ہزار سوار اور پنتالیس ہزار پیادے اور چھ سو چالیس ہاتھی جمع تھے۔سلطان نے جو کسی بلندی پر چڑھ کر یہ لاﺅ لشکر دیکھا تو دل میں پشیمان ہوا کہ میں یہاں کیوں آیا۔ خدا کی درگاہ میں التجا لایا فتح اور سلامتی لیئے گڑ گڑایا۔ خدا کی قدرت رات ہوئی نندرائے پر ایسا خوف عظیم طاری ہوا کہ وہ سب اسباب چھوڑ چھاڑ کر فرار ہوا۔ جب دب ہوا تو سلطان نے دیکھا تو خود گھوڑے پر سوار ہوکر کمین گاہوں کو دیکھا اور پھر دستِ غارت دراز کیا پانچ سو اسی ہاتھی اُس کو یہاں سے ہاتھ لگے۔ غرض بعد اس فتح کے غزنی کو مراجعت کی۔ اس مہم میں کئی باتیں ایسی ہیں کہ اُن کا حل ہونا دشوار ہے۔ اوّل وہ دریا جہاں سلطان محمود غزنوی اٹکا کون تھا۔کوئی دریائے جمن تجویز کرتا ہے۔ تو کوئی رام گنگا بتلاتا ہے۔ غرض کچھ تحقیق نہیں۔ دوسری کوئی پور جیپال کو نبیرہا جیپال لکھتا ہے۔ تو کوئی بیٹا بتلاتا ہے۔ اس مہم کا نام مہم راہب بھی ہے۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں