ایک باپ کی درخواست

دونوں ایک عرصہ بعد آمنے سامنے بیٹھے تھے ایک کے چہرے پر سمندر سے بھی زیادہ گہری محبت تھی اور دوسرے کے چہرے پر نامعلوم شرمندگی،ایک نامعلوم ندامت۔پہلے نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا کیسے ہو بیٹا؟،تمہیں دیکھنے کو دل کر رہا ہے اس اولڈ ہاؤس میں بھیجنے کے بعد تم مجھے بھول ہی گئے۔شرمندہ،شرمندہ چہرے نے کہا پاپا بس زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے بچے بڑے ہو رہے ہیں ان کے اخراجات کے لئے صبح شام بھاگنا پڑتا ہے آپ بتائیے کیسے یاد کیا؟،باپ کہنے لگا عید سر پر آگئی ہے مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب تم میری انگلی پکڑ کر شاپنگ کے لئے جایا کرتے تھے یاد ہے تم کتنی ضد کیا کرتے تھے۔شرمندہ چہرہ زمین کی طرف دیکھنے لگا شاید وہ اپنے با پ سے نظریں نہیں ملا رہا تھا،پھر اس نے زمین پر سے نظریں اٹھائے بغیر کہا مجھے جانا ہے بیٹے کو گراؤنڈ سے پک کرنا ہے وہ کرکٹ اکیڈمی جاتا ہے کوئی حکم ہو تو بتائیں۔بوڑھے آدمی کے ہونٹ لرز رہے تھے شاید وہ آواز نکالنے کے لئے ہمت جمع کر رہا تھا،وہ بولا بیٹا بس ایک گزارش ہے اس اولڈ ہاؤس میں بہت گرمی ہوتی ہے جس سے سانس لینا محال ہو جاتا ہے کیا یہ ممکن ہے تم ان دو کمروں میں ایئر کولر لگوا دو۔بیٹھے نے حیرت سے باپ کو دیکھا،پاپا آپ کئی سال سے یہاں رہ ہے ہیں پھر اچانک کولر کیوں؟۔
بوڑھے نے کرسی سے اٹھ کر نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا،شفقت سے اس کا کاندھا سہلایا اور بولا بیٹا میں یہ گرمی برداشت کرنے کا عادی ہوں پھر میری زندگی ہی کتنی رہ گئی ہے،بس مجھے ڈر ہے کہ جب تیرا بیٹا جوان ہو کر تجھے اس اولڈ ہاؤس میں چھوڑ دے گا تو تمہیں گرمی تنگ نہ کرے۔
باپ بیٹے کا رشتہ بہت مقدس رشتہ ہے کوئی شک نہیں کہ ماں کی ممتا کا کسی جذبے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ماں جیسا عظیم رتبہ اللہ پاک نصیبوں والوں کو دیتا ہے۔مشرقی دنیا میں عورت کو گھر کی علامت قرار دیا گیا ہے۔اسے دکھ،مصائب جھیل کر گھر کی اکائی قائم رکھنے کا ملکہ حاصل ہے،لیکن کبھی باپ کی عظمت پر غور کریں،اسے محسوس کریں آپ کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے لئے جان کی بازی لگانے والا خود چاہے پھٹی بنیان پہنے لیکن آپ کے یونیفارم پر سونے کے ستارے تک لگانے کے لئے تیار۔
نجانے کیوں میرا قلم آج اداس ہے مجھے اپنا مرحوم باپ یاد آرہا ہے،رانا محمد اسحاق قائداعظم ؒ کے ذاتی ملازم تھے پاکستان بنا تو وہ میری ماں کے ساتھ پاکستان آگئے۔تعلیم یافتہ تھے لیکن تمام زندگی مزدوری کی،محنت کی۔میں انہیں کہتا آپ قائد اعظمؒکے ذاتی ملازم رہے ہیں اس کا کچھ تو فائدہ اٹھائیں،ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں وہ قائداعظمؒ کو عالیجاہ کہا کرتے تھے۔کہتے عالیجاہ کی خدمت کے پل ہی میرا ایوارڈ،میرا سرمایہ ہیں۔مجھے یاد ہے سقوط ڈھاکہ کے وقت کئی دن ہمارے گھر چولہا نہیں جلا وہ بیمار ہو گئے بچوں کی طرح رویاکرتے تھے وہ زندگی کے آخری دم تک پاکستان پاکستان پکارتے رہے۔وہ جب رات تھکے ہارے گھر آتے تو اکثر میں انکے پاؤں میں مٹھیاں بھرتا اور اس دوران سو جاتے آج سوچتا ہوں تھوڑی اور مٹھیاں بھر لیتا تو کیا جاتا۔۔۔اہ
بات کہا ں سے کہاں آگئی۔۔بات اولڈ ہاؤسز کی ہورہی تھی۔ان اولڈ ہاؤسز میں وہ جو بیٹھے ہیں وہ وہی ہیں جنہوں نے انہیں پیدا کیا۔جو آج بنگلوں،کوٹھیوں،عالیشان عمارتوں میں رہ رہے ہیں۔وہ یاد کریں کہ آج جن والدین سے پیچھا چھڑا کر انہیں ان یتیم خانوں میں چھوڑ آئے ہیں وہ بوڑھے کانپتے ہاتھوں والے آج بھی اپنے بچوں کی خیر کی دعا کر رہے ہیں،وہ آج بھی اپنے جگر گوشوں کی سلامتی کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں۔یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا اپنی دولت،زندگی،صحت سب کچھ۔
شہر میں آئے پڑھنے والے یہ بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
میں چند سال قبل عید شو کی ریکارڈنگ کے لئے اپنے فلاحی ادارے کے اولڈ ہاؤس گیا وہاں جب میں نے ان لوگوں سے کیمرے کے سامنے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھ سمیت تمام عملہ حیران رہ گیا،ان میں سے بیشتر نے آن کیمرہ بات کرنے سے انکار کر دیا۔میرے استفسار پر ایک نورانی چہرے والی خاتون بولیں!بیٹا میرے بچے سوسائٹی میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں میں نہیں چاہتی کہ انہیں سوسائٹی میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔وہاں موجود ایک بزرگ مجھے ایک طرف لے گئے اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے میرا بیٹا بہت بڑا بیورو کریٹ ہے وہ بہت اچھا ہے،کبھی کبھی مجھے ملنے آتا ہے بس میری بہو کی مجھ سے نہیں بنتی۔وہ مجھے میرے پوتا،پوتی سے ملنے نہیں دیتی پھر وہ خاموش ہوئے جیسے اپنے آنسو پی رہے ہوں۔کہنے لگے اچھا ہے میں بیمار رہتا ہوں میرے پوتا،پوتی ہی کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔انہوں نے اچھا کیا مجھے یہاں بھیج دیا خدارا میرا انٹرویو نہ کرنا مجھے اپنے بیٹے سے بہت محبت ہے میں اسے شرمندہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔میرے شو کی رکارڈنگ کے دوران مجھے دبی دبی سسکیوں کی آوزیں آتی رہیں۔میرے کیمرہ مین چہرے تو شوٹ کرتے رہے لیکن ان چہروں کے پیچھے کرب کو ایکسپوز نہ کر سکے اس کرب کو محسوس کرنے کے لئے کیمرے کی نہیں دل کی آنکھ چاہئے ہوتی ہے۔
محسن انسانیت رحمت ِعالمؒکے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:اگر میں نماز کی نیت باندھ لیتا اور سورہ فاتحہ پڑھ رہاہوتا اور میری والدہ مجھے آواز دیتیں محمد۔۔۔۔تو للہ کی قسم میں نماز چھوڑ کر اپنی ماں کی طرف بھاگا جاتا۔
بس ایک التجا ہے جب آپ اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤسز میں چھوڑنے جائیں تو آپ لیے بھی ایک گوشی مختص کر آیا کریں کیونکہ جو کہانی آپ شروع کرتے ہیں اور اسکا اختتام آپکی اولاد کرتی ہے