12ربیع الاول کا پیغام
ربِ کریم نے بنی نوع انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازہ، زمین کے اوپر اور اس کے پیچھے جو کچھ ہے سب کچھ اسی کے لئے بنایا۔دلچسپ بات ہے اللہ نے سب کو دینے کے باوجود کوئی احسان نہیں جتایا، مگر جب اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے منطق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حقیقت یہ ہے اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کا کلام پڑھ کر سنائے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جب یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔رحمت ِ دو عالم محبوبِ دو جہاں سرورِ کائنات فخر موجودات خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات اقدس خاندانی شرافت سماجی عزت شان و شوکت برگزیدگی و فضیلت اور انسانی خصائل و فضائل کا منبع تھی۔ بخاری شریف کی حدیث ہے حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے یکے بعد دیگرے بنی آدم کے بہترین طبقوں میں منتقل کیا جاتا رہا یہاں تک اس موجودہ قرن میں پیدا کیا گیا۔ ربیع الاول کا مہینہ بابرکت مہینہ ہے اس میں دو جہانوں کے سردار حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس دنیا فانی میں تشریف لائے اللہ نے اپنے نبی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کے لئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا اور اللہ کے ساتھ ہی اپنی رضا محبت کے لئے ایک معیار اورضابطہ بھی منور فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی اور اطاعت، قرآن عظیم الشان میں ارشاد فرمایا:اے محمد! کہہ دیجئے،اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری تابعداری کرو اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنائے گا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بہترین نمونہ ہے۔نبی ئ مہربان فرماتے ہیں، جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں جائے گا۔تمام عبادات مالی ہوں یانفلی ہوں یا فرض ہر اچھے کام کی وضاحت و تفصیل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرما دی ہے اور اُمت کے لئے عملی نمونہ قائم کر کے فرما دیا ہے تم میں کوئی ایماندار نہیں بن سکتا جب تک اس کی تمام خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔اسلام ایک مکمل ضابطہ ئ حیات، دستور العمل زندگی کے ہر شعبہ کے لئے رہنمائی پیش کرتا ہے۔ہلال و حرام، جائز و ناجائز امور کا بیان، نیکی اور بدی کا تعین،ثواب و عزاب امور کی تفصیل صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کر سکتے ہیں،کسی اور کو یہ حق نہیں دیا گیا۔قرآن کریم میں بار بار اسی چیز کو باجور اور ذہین نشین کر دیا گیا! شرعی امور میں وحی الٰہی کے بغیر کسی کی پیروی نہیں کرتا یہی حکم مسلمانوں کو دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نازل کیا گیا اس کی تابعداری کرو اس کے سوا کسی اور کی تابعداری مت کرو۔ قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرمایا گیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔پیروی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے اپنی مرضی سے عمل کر کے انسان ثواب کی اُمید ہر گز نہیں رکھ سکتا۔تاریخ میں سیدنا عبداللہ بن رواحہؓ کا واقع رہنمائی کرتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ کو ایک لشکر کے ساتھ کسی جنگ میں بھیجنے کا حکم دیا۔بروز جمعتہ المبارک تھا صبح روانہ ہونے کا کہا گیا عبداللہ بن رواحہ کے تمام ساتھی علی الصبح روانہ ہو گئے۔ عبداللہ ؓ نے کہا میں پیچھے رہ کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (جمعتہ المبارک) کی نماز پڑھ کر ساتھیوں سے مل جاؤں گا۔ مقصد یہ تھا کہ جہاد میں جا رہا ہوں شاید دوبارہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز جمعتہ المبارک پڑھنے کا موقع نصیب نہ ہو۔ جہاد کے ساتھ اس سعادت کو بھی حاصل کر لوں۔ مسجد نبویؐ میں ایک جمعہ ایک ہزار جمعہ کے برابر درجہ رکھتا ہے۔ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوئے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دیکھ کر بلایا اور پوچھا حج کے وقت تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیوں نہیں گئے عبداللہ بن روحہ فرماتے ہیں آقا میں نے آپؐ کے پیچھے جمعتہ المبارک پڑھنے کا ارادہ کیا ہے اس کے بعد ساتھیوں سے مل جاؤں گا آپؐ نے فرمایا:اگر زمین کے خزانے اور دولت(اللہ کی رضا کے لئے) خرچ کر دو تو پھر بھی ان لوگوں کے لئے علی الصبح روانہ ہونے کی فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی۔
ہمارے لئے اس واقع میں بہت کچھ سوچنے اور غور کرنے کو مل رہا ہے۔جمعہ فرض ہے مسجد نبویؐ میں جمعہ کی نماز کی فضلیت بھی اہم ہی نہیں ہے دیگر مساجد کی نسبت ایک ہزار جمعہ کا ثواب بھی ہے اس سے بڑھ کر جمعہ بھی دوجہانوں کے سردار کی اقتداء و امامت میں ہو رہا تھا لیکن نبی ؐ کا حکم علی الصبح روانہ ہونے کا تھا اس کے مقابلہ میں صحابی رسولؐ نے اپنی مرضی اپنی ر ائے، اپنے خیال سے ایک عمل کیا۔اگر نیت ثواب حاصل کرنے کی تھی، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے وقت پر روانہ ہو کر اطاعت نہ کی، جس سے معلوم ہوا کہ اپنی مرضی سے کی ہوئی نیکی شرفِ قبولیت حاصل نہیں کر سکتی، بلکہ عمل کی قبولیت کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے۔ربیع الاول کا مہینہ پوری دنیا کے لئے رحمتوں اور امیدوں کا مہینہ ہے اس مبارک ماہ میں نبی ئ مہربان اِس دنیا میں آئے جن کے صدقے اللہ نے دنیا کا نظام قائم کیا اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کو رضائے الٰہی کا حصول قرار دیا گیا۔ اللہ کے نبیؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور پہلو ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہے۔ ربیع الاول کا مہینہ بالعموم اور 12ربیع الاول کا دن بالخصوص ہمارے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تین دن بعد آنے والا12ربیع الاول کا دن اپنے آپ میں تبدیلی لانے، اپنے آپ کو نبی ئ مہربان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ڈوبنے کا دن ہے ہمارے ہاں عموماً نبی ئ مہربان سے عشق اور تعلق کے لئے12ربیع الاول کے دن کو لائٹیں لگانے اور جھنڈیاں لگانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ 12ربیع الاول کے دن جشن کا جلوس نکالنے کو ہی عشق رسول سمجھ لیا گیا ہے،حالانکہ اس عقیدہ کے مسلمانوں کے عمل کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا،کیونکہ یہ لوگ بھی سادگی میں تمام عمل ثواب اور عشق ِ رسول میں انجام دیتے ہیں،حالانکہ عشق رسولؐ میں اگر اپنے محلے یا علاقے کو روشن کرنا ہے تو لائٹیں سرکاری یا چوری کی بجلی سے تو نہیں لگانی چاہئے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے رسولؐ نے فرمایا: جس شخص نے دین کے معاملہ میں نئی بات سنی، رسم نکالی تو وہ مردود ہے۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ہے، جس نے دین کے اندر ایسی چیز ایجاد کی، جس کی اجازت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے نہ دی ہو تو اس دین سے کوئی تعلق نہ ہے۔نبی ئ مہربان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اختلافات سے بالاتر ہے ہمیں ان کی آمد کے دن میں اختلاف پیدا کرنے کی بجائے اُن کی بتائی ہوئی باتوں کی طرف توجہ دینا ہو گی۔مولانا ابو الکلام آزاد نے کیاخوب لکھاذ ہے تم اپنے گھروں کو اور مجلسوں کو آباد کرتے ہو، مگر تمہیں اپنے دِل کی اجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے، تم کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کرتے ہو، مگر اپنے دِل کی اندھیاری کو دور کرنے کے لئے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈتے، تم پھولوں سے گلدستے سجاتے ہو مگر آہ تمہارے اعمال حسنہ کا پھول مرجھا گیا ہے، تم گلاب کے چھٹوں سے اپنے رومال و آستیں کو معطر کرنا چاہتے ہو، مگر آہ تمہاری غفلت کہ تمہاری عظمت اسلامی کی عطر بیزی سے دنیا مشام روح یکسر محروم ہے۔
قرآن عظیم الشان نے دنیا آخرت کی کامیابی اللہ اور اُس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں میں بتائی ہے ہم ان سے روح گردانی کرنے کی بجائے مقدس ماہ میں اپنے اصل کی طرف کیوں لوٹ نہیں آتے،آیئے ربیع الاول کے مبارک ماہ کے تیزی سے گزرتے دِنوں کے موقع پر اپنے اور اپنے حاندان، بیوی بچوں کو دین ِ فطرت سے آگاہی دینے کے لئے نبی ئ مہربان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی پر عمل کرنے کا عزم کریں، فرمودات نبی ؐ پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بدلنے کا عزم کریں۔
٭٭٭٭٭