ریٹرننگ افسروں کے سوالات اور جوابی صدائے احتجاج

ریٹرننگ افسروں کے سوالات اور جوابی صدائے احتجاج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی قوم نے گزشتہ پندرہ سال کے عرصہ میں مالی بحرانوں ،مہنگائی، غربت، کرپشن اور لاقانونیت کے سواکچھ نہیں دیکھا۔سوائے اس کے کہ حکمران مصالحت، مفاہمت،جمہوریت کا تسلسل،آئینی مدت کی تکمیل اور میثاق جمہوریت جیسی مبہم اصطلاحات کے سہارے اپنی جیبیں بھرنے کے بعد عوام کو آنے والے الیکشن اور روشن مستقبل کی نوید سنا کر چلتے بنے۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور نئے خواب کی تعبیر کی تلاش میں جت گئے۔وہی پرانے پارلیمنٹیرین ایک بار پھر پارٹیاں بدل کر اور نیا لبادہ اوڑھ کر اپنے کاغذات نامزدگی ہاتھ میں لئے امیدواروں کی قطار میں لگ گئے، تو ان کے لئے الیکشن کمیشن کے تعینات کردہ ریٹرننگ افسروں نے اس وقت مشکلات کے پہاڑ کھڑے کردیئے،جب ان سے پہلا ،دوسرا کلمہ سنانے ، قائداعظم کی تاریخ پیدائش بتانے اور نظریہءپاکستان کیا ہے اور نظریہءاسلام کیا ہے؟جیسے مشکل سوالات کے مراحل عبور کرنے کی قدغن لگا دی گئی ۔ ریٹرننگ افسران نے پہلی مرتبہ اتنی ہمت آئین کے آرٹیکل 62اور63سے پائی جو بلاشبہ آئین کا حصہ ہے۔ وہی آئین جو قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا ضامن ہے۔
مقام افسوس ہے کہ زیادہ تر امیدوارریٹرننگ افسران کے ان سوالات کے جوابات نہ دے سکے، جو شائد دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھنے والا بچہ بھی دے سکتا ہے۔چند ایک امیدوار حضرات نے اپنی کم علمی پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے جواب دیا کہ نماز ، دعائے قنوت یا کلمہ نہ آنا میرا اور خدا کا معاملہ ہے۔درحقیقت معاملہ تو محض اتنا ہے کہ دستور کا منشا یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا امیدوار صادق اور امین ہو اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو۔علماءکی صفت میں ارشاد الٰہی ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے عالم لوگ ہی ڈرتے ہیں۔ پیغمبرﷺ نے فرمایا:علم کی تلاش ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔حضرت شیخ مخدوم علی ہجویریؒ المعروف داتاگنج بخش اپنی تصنیف کشف المحجوب میں رقمطراز ہیں کہ علم بہت ہیں اور انسان کی عمر تھوڑی ہے، اس لئے تمام علوم و فنون کا سیکھنا انسان پر فرض نہیں، مثلاً علم نجوم، حساب، طب اور علم بدیع کی تمام صنائع و بدائع وغیرہ کا پڑھنا کوئی ضروری نہیں، یعنی علم کا سیکھنا اس حد تک فرض ہے کہ عمل درست ہو جائے۔
اس اتنی سی بات کو برداشت نہیں کیا گیا اور ایک مخصوص خوفزدہ اور این جی اوزسے وابستہ طبقہ آستین چڑھا کر سامنے آ گیا اور میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ کہ پاکستان کے بارے میں قائداعظمؒ نے اسلامی ریاست کا دعویٰ کبھی نہیں کیا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ ایک مخصوص طبقہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے،جو روشن خیالی، جدت پسندی اور انسانی حقوق کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر پاکستان میں مادر پدر آزادی کا خواہاں رہا ہے۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک یہ طبقہ ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ قائداعظمؒ نے کبھی نہیں کہا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ.... بدبختی ہے کہ یہ طبقہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس ملک کا نام ہی پاک ہے اور پاکیزگی کلمہ طیبہ کے بغیر آ ہی نہیں سکتی۔ میری دانست میں یہ بحث ہی غیر ضروری ہے کہ قائداعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ قابل توجہ امر یہ ہے کہ ہم رسول کریمﷺ کے امتی ہیں اور ہمیں ایسے ملک کی ضرورت ہے، جہاں حاکمیت اللہ کی ہو اور سنت رسول عربیﷺ کی۔حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول کریمﷺ سے ان کی سنت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ معرفت میری پونجی، محبت دستور، شوق سواری، اللہ کا ذکر میری آرزو ،رنج میرا دوست ،علم ہتھیار، صبر میری چادر ،رضائے الٰہی میری غنیمت اور غربت میرا امتیاز ،زہد میری سنت، یقین قوت ،سچائی شفیع، طاقت میرا شرف، جہاد میری عادت اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے۔
ایک اہم شخصیت نے ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں طنزاً کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک کتابچہ جاری کردینا چاہیے تھا،تاکہ امیدوار جوابات یاد کرکے آتے۔میرا ان موصوف سے استفسار ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نے قبل ازیں کوئی ایسا کتابچہ یا ہدایات جاری کررکھی ہیں کہ امیدوار کو پہلا اور دوسرا کلمہ یا قائداعظمؒ کی تاریخ پیدائش یاد نہیں ہونی چاہیے۔مقام افسوس ہے کہ ہم اپنی کم علمی اور جہالت پر نادم ہونے کی بجائے ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔حضرت کلاہ ابن حنبل فرماتے ہیںکہ مجھے رضوان بن امیہ نے دودھ، ہرن کا بچہ اور کھیرا(ککڑی) دے کر رسول اکرمﷺ کے پاس بھیجا۔ مَیں خدمت اقدس میں حاضر ہوا، مگر سلام کرنا بھول گیا تو آپ نے تنبیہ فرمائی کہ تم واپس جاﺅ اور السلام علیکم کہہ کر اندر آﺅ“۔
ایک اور اہم شخصیت نے ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی اس میراتھن دوڑ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ مذہب میرا اور خدا کا معاملہ ہے اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوں۔بلاشبہ وہ درست کہہ رہے ہیں، مگر جناب والا! یہ بریت نہیں ہے۔یہ تو بہت ہی کڑا امتحان ہے کہ مذہب اللہ کا اور بندے کا معاملہ ہے۔بندے کا یہ معاملہ براہ راست اللہ سے ہے۔یہی تو وجہ ہے کہ بڑے بڑے برگزیدہ پیغمبر بھی ساری رات آہ و زاری اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ہم مسلمانوں کی شامت اعمال ہے کہ ہم اس طرح کا کردار اپنا کر آنے والی نوجوان نسلوں کو بھی شاید یہ درس دے رہے ہیں کہ اخلاق، مذہب یا حب الوطنی سے شاید عہدہ،دولت اور مادر پدر آزادی اور روشن خیالی زیادہ اہم ہیں، لہٰذا کسی بھی طرح کوئی اہم حیثیت حاصل کرکے دولت سمیٹ لی جائے ۔روایت ہےکہ ایک مرتبہ خلیفہ منصور عباسی نے حضرت عبدالرحمنؒ سے کہا کہ مجھے آپ کچھ نصیحت فرمائیں تو انہوں نے فرمایا کہ عمر بن عبدالعزیز نے بوقت وفات گیارہ لڑکے اور سترہ دینار ترکہ چھوڑا، جس میں سے پانچ دینار کفن اور قبر کی زمین خریدنے میں لگ گئے اور ہر لڑکے کو انیس درہم حصہ ملا، جبکہ ہشام بن عبدالملک نے بھی گیارہ لڑکے اور اتنا ترکہ چھوڑا کہ ہر لڑکے کو دس دس لاکھ درہم حصہ ملا۔ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز کے ایک لڑکے نے فی سبیل اللہ جہاد کے لئے سو گھوڑے بھیجے ،جبکہ ہشام کے بیٹے کو مَیں نے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا“۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور رویوں سے اسلام کو نظر انداز کرنے کی بجائے مادہ پرستی اور روشن خیالی جیسے رجحانات کویکسر رد کردیں۔صحیح مسلم میں ”حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ قیامت کے روزدوزخ سے وہ کلمہ گو حضرات بھی نکال لئے جائیں گے، جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا“....روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓنے مشہور خطیب عرب ابن لسان الحمرہ (ظرقا بن الاشعر) سے کچھ سوالات کے صحیح جوابات دینے پر استفسار کیا کہ آپ نے یہ علم کس ذریعے سے حاصل کیا تو انہوں نے کہا کہ بکثرت سوال کرنے والی زبان اور عاقل قلب سے اور کہا کہ علم کے لئے ایک آفت نسیان ہے، اصناعت یہ ہے کہ کسی نااہل کے آگے بیان کیا جائے، اس کا نقص یہ ہے کہ اس میں جھوٹ ملایا جائے اور اس کی اسجاعت (بھوک) یہ ہے کہ طالب علم کبھی علم سے سیر نہیں ہوتا۔اللہ ہمارے رہنماﺅں کو اسلامی تعلیمات سے آشنائی کی مزید توفیق دے اور ان کو وہ مقام عطا کرے کہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلنے پر فخر محسوس کریں۔  ٭

مزید :

کالم -