سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، آخری قسط

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، آخری قسط
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، آخری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مارٹن کرو
میں نے جو کھلاڑی دیکھے ہیں ان میں مارٹن کرو ریورس سوئنگ کھیلنے والے بہترین کھلاڑی تھے۔نیوزی لینڈ کے یہ بیٹسمین ہمیشہ فنی اعتبار سے بالکل صحیح صحیح اسٹروک کھیلنے والے ماڈل کرکٹر تھے۔وہ تمام وکٹوں پر ایک طاقتور مخالف ثابت ہوتے تھے،۔انہیں کسی بھی خاص اسٹائل کی باؤلنگ پر کھیلنے کا گر آتا تھا۔ریورس سوئنگ کھیلنے کی ان کی تکنیک یہ تھی کہ وہ ایسی گیند کو ان سوئنگر قرار دے کر اسٹریٹ بیٹ سے کھیلتے تھے اگر یہ خیر سے آؤٹ سوئنگر نکلتی تو ان کے بیٹس اور وکٹوں کو مس کرتی پیچھے نکل جاتی کیونکہ وہ اپنی طبعیت پر جبر کرکے اسے چھوڑ دیتے تھے۔مارٹن کرو بیٹ اور پیڈ ملاکر فاورڈ کھیلتے اور گھنٹوں ہمارا رستہ روکے رکھتے۔ اگر آپ ان کی طرف باؤنسر پھینکیں گے تو وہ بڑے آرام سے جھک جائیں گے تو آپ کی ساری توانائی اکارت جائے گی۔وہ ایسے ماہر کھلاڑی تھے کہ عین وقت پر رنز لے کر اگلے اینڈ پر اآجاتے اور میرے یاوقار کے اگلے اوور میں پھر ڈٹ جاتے۔وہ خاص بیٹسمین ہی ہوتے ہیں جن کو اس طرح اپنے ساتھی بیٹسمین کو بچانے کی پرواہ ہوتی ہے۔

قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گراہم گوچ
میرے دور کے انگلستان کے کھلاڑیوں میں گراہم گوچ واحد کرکٹر ہیں جن کو میں اپنے عہد کا عظیم کھلاڑی قرار دوں گا کیونکہ کوئی اور ان کی عمدگی کے تسلسل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ایک بیٹسمین کے لئے اوپنر کی ذمہ داری سب سے مشکل ہوتی ہے۔کیونکہ کوئی بھی نئی گیند سے کی جانے والی ڈلیوری جسے کھیلا نہ جا سکتا ہو آپ کا کام تمام کر سکتی ہے۔لہٰذا آپ کو قسمت کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ بہادر بھی ہوں اور ا پنے اعصاب کو بھی قابو میں رکھیں۔گراہم گوچ کئی سال تک دنیا بھر میں انگلستان کیلئے یہ کردارادا کرتے رہے اور ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہیں آئی۔ ان کی انگلستان کی ٹیم میں دوسروں سے زیادہ بیش قیمت سب سے قیمتی وکٹ ہوا کرتی تھی۔میں ان کے مقابلے کے جذبے کی قدر کرتا ہوں۔
1992ء میں اولڈ ٹریفورڈ میں میں نے اور وقار نے گوچ کو آؤٹ کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ ہفتے کی اس رات کو ہمیں اچھی طرح احساس تھا کہ جیسے ہی گرام گوچ راستے سے ہٹ گئے انگلستان کو فالو آن ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ مگر گراہم گوچ نے ہتھیار نہیں ڈالے اس تیز وکٹ پر یہ زبردست مقابلہ تھا جس میں گراہم گوچ ہم پر حاوی آگئے۔پھر اسی سیریز میں شاندار سنچری بنا کر انہوں نے لیڈز ٹیسٹ میں انگلستان کو کامیابی دلائی ۔میں نے انہیں کئی بار Beatکیا اور وہ مجھے دیکھ کر تعریفی انداز میں سر ہلاتے رہے۔مجھے مایوسی ہوتی جب میں دیکھتا کہ گراہم گوچ فریش گارڈ لیتے اور اگلی گیند اس کی پوری میرٹ کے مطابق کھیلتے۔
ان کی رنز بنانے کی پیاس اور اسٹیمنا قابل دید تھا۔ جب ان کا کیرئر دم توڑ رہا تھا اور وہ42سال کے ہو چکے تھے اس وقت بھی انہوں نے اسیکس کی طرف سے اولڈ ٹریفورڈ میں 248گیندوں پر123رنزبنائے اور ایک بھی غلط شاٹ نہیں کھیلا۔ وہ بڑی ہائی جیک لفٹ سے کھیلتے تھے اور یار کران کا شکار کر سکتی تھی مگر وہ شاذو نادر ہی اس طرح آؤٹ ہوتے تھے۔ وہ فاسٹ بولنگ پر کھیلنے کے ہی اسپیشلسٹ نہیں تھے۔بلکہ میں نے انہیں لیگ اسپنر عبدالقار اور مشتاق احمد کی ٹھکائی کرتے بھی دیکھا ہے۔گوچ ایک دم سامنے آکر قیادت کرتے تھے۔یقیناً وہ کبھی کبھار اس بات پر افسوس کرتے ہوں گے کہ انگلستان کے دوسرے بیٹسمین ان کے نقش قدم پر نہیں چلے۔وہ واقعی ایسے بیٹسمین تھے جن کے بارے میں دل کرتا ہے کہ کاش زندگی میں ایک بار ضرور ایسے بیٹسمین کے خلاف کھیلنے کا موقع ملے۔مجھے یہ موقع ملا جسے میں اپنے لئے زندگی کا بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔
سچن ٹنڈولکر
کوئی عجب نہیں کہ سچن ٹنڈولکر 1990ء کی دہائی کے سب سے کامیاب بیٹسمین کے طور پر ابھرے ہیں۔جب یہ دہائی شروع ہوئی تو وہ مشکل سے سترہ سال کے تھے مگر میں نے ان کے اندر ایک بڑے اسٹار کی جھلکیاں دیکھ لی تھیں۔انہوں نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے انتہائی مشکل حالات میں ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں پہلا قدم رکھا تھا اور اس کے بعد پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔انہوں نے بڑے مشکل حالات میں عمران،وقار،عبدالقادر اور خود میری گیندوں پر چھٹے نمبر پر بیٹنگ کی اور بڑے پر سکون نظر آئے۔اس سیریز کے دوران انہوں نے دو نصف سنچریاں بنائیں اور ان ہی میں سے ایک اننگز کے دوران سیالکوٹ میں ،میں نے انہیں مسلسل کئی باؤنسرز پھینک کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ مرعوب نہیں ہوئے اور میری ساری توانائی ضائع گئی اور مجھے امپائر جون ہولڈر کی باتیں بھی سننی پڑیں۔
ٹنڈولکر کچھ اس قسم کا اتنا اچھا کھلاڑی ہے کہ اس کے معاملے میں عمر اپنے معنی کھو بیٹھی ہے۔بھارت اور پاکستان اس فلسفے کے خالق اور حمایتی ہیں جبکہ دوسرے ممالک کم عمر کھلاڑیوں پر بھروسہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ٹنڈولکر بالکل ایک ماڈل کرکٹر اور بہت سکون سے بالکل صحیح اسٹروک کھیلنے والے بیٹسمین ہیں اور ان خوبیوں نے انہیں دنیا کا بہترین اور شاید مادار ترین بیٹسمین بنا دیا ہے۔میری تمام تر نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔یہ بھی اپنی جگہ بڑی حیران کن بات ہے کہ اپنے وطن میں اتنے لاڈ پیار کے باوجود وہ بگڑے نہیں ہیں۔ان میں غرور اور بڑائی کا شانبہ تک ن ہیں آیا۔وہ اپنے کھیل میں مگن بڑی خوبصورتی سے رنز کا ڈھیر لگاتے رہتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ فولادی اعصاب کے مالک ہیں۔
ختم شد