سوشل میڈیا ہائی جیک

کیمبرج اینالٹیکا برطانیہ میں ایک فرم کا نام ہے جس نے صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کے دوران ان کے لیے ڈیجیٹل اسائنمنٹ پر کام کیا تھا۔ اس فرم کا کیمبرج یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نام رکھنے میں آزادی ہے بس قانونی طور پر کسی دوسرے نام سے متصادم نہ ہو۔ نوجوانوں کی رائے پر اثرا انداز ہونا نسبتاً آسان ہوتا ہے اس لیے خدشہ یہ ہے کہ بریگزیٹ کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے نوجوانوں پر فوکس کیا گیا تھا۔ کیا نوجوانوں کی راے پختہ نہیں ہوتی ؟ یا انہیں آسانی سے گمراہ کیا جاسکتا ہے؟ یہ نا پختہ رائے رکھنے والے جمہوری مینڈیٹ کا کتنا فیصد ہوتے ہیں؟ پچاس فیصد یا ساٹھ فیصد؟ ایم۔آئی۔ٹی کی ایک حالیہ تحقیقی دستاویز کے مطابق جھوٹی خبر انٹرنیٹ پر چھ گناہ زیادہ پھیلتی ہے۔ بات یہ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے ہائی جیکز کو قابو کرنے کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں۔ ہیں ضرور مگر تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی پر بروقت روبوسٹ قانون سازی ایک چیلنج ہے۔
جب سے انٹرنیٹ آیا ہے کچھ انٹرنیٹ کمپنیوں نے بزنس کے میدان میں تابناک کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کمپنیوں کی مالیت کھربوں ڈالرز میں ہے اور ان کے شیئرز سٹاک مارکیٹ کے مقبول ترین شیئرز بن گئے ہیں۔ ان کمپنیوں نے جو کام کیا وہ انقلابی ہے۔ انہوں نے عوام کو ایک دوسرے سے جوڑا اور عوام ایک دوسرے سے انفارمیشن کا تبادلہ کرنے لگے۔ یہ انفارمیشن پہلے حکمران طبقہ اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ کر عوام تک پہنچاتا تھا۔ اب عوام یہ خبر ایک دوسرے تک خود پہنچانے لگے ہیں۔کم از کم عوام کی خبریں ایک دوسرے تک پہنچانے لگے ہیں اور حکمران طبقے کی اجارہ داری پر کاری ضرب لگ چکی ہے۔
برطانیہ کی آئی ٹی فرم پر الزام لگا ہے کہ اس نے فیس بک کے پچاس ملین یوزرز کا ڈیٹا لیا ہے یا چرایا ہے۔ پھر کچھ اور فرمز نے بیٹھ کر اس ڈیٹا پر تجربات کیے۔ مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا ماڈل بنایا جاے جو فیس بک استعمال کرنے والوں کے رحجانات اور نفسیات کا تعین کرسکے۔ ریسریچ کرنے والے اس ڈیٹا پر مختلف اینگل سے تحقیق کریں گے اور اور تدابیر ڈھونڈھ نکالیں گے کہ انفارمیشن پاور کو واپس حکومت یا حکمران طبقے کے طابع کیا جا سکے۔ ٹرمپ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے یہ مہم جوئی کروائی ہے۔ روس والے پہلے ہی امریکی الیکشن میں فیس بک کے ذریعے لابنگ کرچکے ہیں۔یہ بھی خدشہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بریگزٹ کے نتائج پر بھی اثرات مرتب کیے گئے ہیں اور اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ یہ تو وہ کہانی ہے جو پبلک ہوئی ہے۔ کتنا کچھ ایسا ہے جو پبلک نہیں ہوا اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
برطانیہ میں کچھ آئی ٹی فرمز نے کمپیوٹر ماڈل بناے ہیں جن سے آپ کی شخصیت کو تولا جاسکتا ہے۔ آپ کے دس فیس بک لائیکز سے یہ کمپیوٹر ماڈل آپ کو آپ کے کولیگز سے زیادہ جان سکتا ہے۔ آپ کے ایک سو پچاس لائیکز سے آپ کو آپ کے والدین اور بچوں سے زیادہ جان سکتا ہے۔ آپکے تین سو لائیکز دیکھ کر یہ کمپیوٹر ماڈل آپ کو آپ کی بیوی یا خاوند سے زیادہ جان سکتا ہے۔
ہم رہنے کے لحاظ سے دنیا کے ایک بہترین ملک میں رہتے ہیں۔ دنیا کی مثالی جمہوریتیں یا تو یورپ میں ہیں۔ یا پھر امریکہ میں ہونگی۔ چلیں امریکی جمہوریت کی مثال ہی لیتے ہیں۔ امریکہ خود کو دنیا کا پولیس مین نہیں بلکہ لیڈر منوانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا رہا ہے۔ بے شک وہ طاقتور ہے اور دنیا اس کی طاقت سے مرعوب ہے لیکن جب وہ اپنے اتحادیوں کا تعاون مانگتا ہے یا باقی دنیا کے سامنے اپنا ایجنڈا رکھتا ہے تو وہ یہ تو نہیں کہتا کہ چونکہ میں سب سے مضبوط ہوں۔ میری ملٹری دنیا کی سب سے مضبوط ملٹری ہے۔ میری معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اس لیے سار ے اتحادی میرا ساتھ دیں۔ اس کی بجاے امریکہ دنیا کو بتاتا ہے کہ میں دنیا میں آزادی، انسانی حقوق اور رواداری کا علمبردار ہوں اور فلاں فلاں جگہ ، فلاں فلاں ملکوں میں انسانی حقوق کو خطرہ ہے یا انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فلاں ملک پر چڑھائی کردوں۔ باقی حلیف شک وشبے کا اظہار بھی کرتے ہیں بعض اپنے مفادات کا تخمینہ لگاتے ہیںاور انہیں لگتا ہے کہ اس مہم میں ان کا بھی فائدہ ہے اور جن کا فائدہ نہیں بھی ہوتا وہ سوچتے ہیں طاقتور کا ساتھ دینے میں ہی بھلا ہے۔
ٰٰٰٰیہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بیانیہ رہا ہے۔ بھلا ہو ٹرمپ کا، اس نے اس بیانیے کو حقیقی رخ دیا کہ امریکہ دنیا میں جو بھی کرتا ہے اپنے مفاد کے لیے کرتا ہے۔ ٹرمپ کا امریکہ کا صدر بننا امریکہ کے ساٹھ ستر سالہ قومی بیانیے کی نفی ہے۔ ٹرمپ امریکی جمہوری نظام کی کمزوریوں کی پیداوار ہے۔ ووٹو ں کی گنتی میں تو ہیلری کلنٹن کو جیتنا چاہیے تھا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کا جمہوری نظام بعض اوقات کافی ناقص لگتا ہے۔ یو ں کہیے کہ یہاں جمہوریت کو کنفیوژ کرنااور اسے ڈاج دینا نا ممکن نہیں ہے۔
مغربی جمہوریتیں اپنے شہریوں سے ٹیکس لیتی ہیں۔ نظام روبوسٹ بنایا ہے لیکن کارپوریٹ کمپنیاں ٹیکس کی مد میں خطیر رقم دیتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم پر رقم خرچ کرتی ہیں اورحکومت کو اور پالیسی ساز اداروں سے اپنے مرضی کے بل پاس کروانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ عوام یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ پالیسی ساز ادارے صرف ان کے بھلے میں پالیسیاں بناتے ہیں۔ عوام یہاں بھی بھولے ہوتے ہیں۔ وہ اکثر پاور ہائی جیک کو روک نہیں سکتے بلکہ سمجھ بھی نہیں پاتے۔ سوشل میڈیا نے سنٹرل پاور ہاوس کو متزلزل ضرور کیا ہے لیکن سرمایہ دار طبقہ، حکمران طبقہ کہاں چاہے گا کہ پاور کو ڈی سنٹرالائز کردیا جاے۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔