ہم آزاد ہو گئے لیکن ۔ ۔ ۔ 

 ہم آزاد ہو گئے لیکن ۔ ۔ ۔ 
 ہم آزاد ہو گئے لیکن ۔ ۔ ۔ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


14 اگست 1947 رات 12 بجے کے بعد ایک ا علان ہوا اور ہم آزاد ہو گئے, کیا کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ یہ آزادی ہم نے کیسے حاصل کی اور کیا یہ کبھی سوچا کہ کیا ہم سچ میں آزاد ہیں یا آج بھی اسی قید کی زندگی گزار رہے ہیں? جیسے 14 اگست 1947 سے پہلے گزار رہے تھے۔۔ پاکستان  جس کو لازوال قربانیوں سے حاصل کیا گیا، یہ سرزمین ہم نے لاکھوں معصوم جانیں گنوا کے حاصل کی۔۔ 
پاکستان بننے سے پہلے جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، پہلے ایک نظر اس پر ہی ڈال لیتے ہیں تاکہ ہمیں یاد تو آئے ہم نے کیا کھو کر کیا پایا۔۔ برصغیر ۔۔۔ جب پاکستان اور ہندوستان بنا تو  تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اس وقت ہوئی، ہجرت کرنے والوں میں ایک اللہ دتہ صاحب بھی تھے جو  ہجر ت کر کے آئے، انہوں نے کیا کچھ برداشت کیا یہ وہی  بتا سکتے ہیں، ان سے ایک بار بات ہوئی تو انہوں نے ایسےدل دہلا دینے والے واقعات بتائے کہ روح کانپ گئی۔ ان کے 4 بڑے بھائی تھے، سب کے سب ہندؤوں کے جتھوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے، قائداعظم کی زیر قیادت کئی جلسوں میں حصہ لیا اور نعرے لگاتے کہ لے کر رہیں گے پاکستان ،بن کر رہے گا پاکستان ۔۔ کئی بار اگر ہندؤوں کے محلے سے گزر ہوتا تو اس بات کا پتہ نہیں ہوتا تھا کہ زندہ واپس جا سکیں گے یا نہیں۔

انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ قیام پاکستان کے وقت جب ہم ہجرت کرنے لگے تو گھر والوں نے سارا سامان باندھ لیا اور چوک میں بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگے  ، مجھے کہا کہ تم چنے لے آؤ ، نہیں معلوم کتنا وقت لگے پہنچنے میں۔۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چنے لے کر جب واپس آرہے تھے تو رستے میں ہندوؤں نے انہیں دیکھ لیا اور کہا وہ دیکھو مسلم ، یہ سن کر میں وہاں سے بھاگا کیونکہ اگر وہ مجھے پکڑ لیتے تو ناجانے کتنے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ۔ میں وہاں سے ایک ہندو کے گھر میں داخل ہوا جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا ، اس میں ایک لڑکی تھی میں نے اس کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا کہ مجھے بچا لو، اس نے مجھے اپنے بھائیوں کی طرح سمجھا اوران  لوگوں سے  بچا لیا اور بعد میں کہا کہ اب بھاگ جاؤ،  آگے تمہاری قسمت۔۔   وہ بھاگ کر اپنے گھر والوں کے پاس پہنچے اور انکی ماں نے وہ چنے ایک لوہے کے صندوق میں رکھ دیے تاکہ سفر میں کام آسکیں ۔۔

انہوں نے بتایا کہ جب  سفر شروع ہوا تو  ماں جی گاڑی پر چڑھتے ہوئے گری اور انکی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن اس وقت حالات ایسے تھے کہ ڈاکٹر بھی موجود نہیں تھے۔۔ بھوکے پیاسے ہم  جیسے تیسے  وقت گزار رہے تھے،  ہماری گاڑی کے ساتھ آرمی کے بندے بھی تھے جو ہماری سکیورٹی کے لیے تھے لیکن  رستے میں کہیں گاڑی رکتی تو سانسیں بھی رک جاتیں۔ جوان اور خوبصورت لڑکیوں کو کھینچ کر نیچے اتار لیتے اور اگر کوئی ان کو روکنے کی کوشش کرتا تو قتل کر دیا جاتا۔۔ جو بھی گاڑی رستے میں ان کو نظر آتی اس کو روک کر لڑکیوں کو نکال لیتے اور ان کی عزتوں کو پامال کر دیتے،  اپنی عزتیں  بچانے کے لیے کنویں میں کود جانے کی کہانیاں بھی موجود ہیں، جب کوئی گاڑی پاکستان پہنچتی تو اس میں ہر طرف خون اور لاشیں ہوتی۔ رستے میں ہر طرف انسانوں اور جانوروں کی لاشیں نظر آتیں،  پانی کے اندر بھی کتوں، بھینسوں اور انسانوں کی لاشیں تیر رہی تھیں،  ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں تھا اور کھانے کے لیے کھانا نہیں تھا ، جب بے حال ہونے لگے تو وہی چنے نکالے، نمی کی وجہ سے ان کو کائی لگ گئی تھی ،ہم نے   وہی چنے کھائے اور ناک بند کر کے وہی خون آلود پانی حلق سے اتارا، جیسے تیسے کر کے ہم لاہور کینٹ سٹیشن پہنچے، یہ پہلی گاڑی تھی جو سلامتی سے لاہور کینٹ پہنچی۔۔ جب وہاں اترے تو ہر طرف میدان تھا کوئی پتہ نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے ،  ہم وہیں اس زمیں پر سجدہ ریز ہوئے کہ ہم پاکستان پہنچ گئے۔

محلے کے لوگوں نے ہی کھانا بنایا ، دال اور روٹی ہمیں دی ،  اتنے دن بعد کھانا  کھا کر ہمیں ایسے لگ رہا تھا کہ یہ دال روٹی منوسلویٰ ہے ، یہ سب  بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھیں مسلسل آنسوؤں سے تر تھیں، وہ یہ قصہ ابھی تک نہیں بھولے ، اپنے جان سے پیارے بھائی ،،انہوں نے اس آزادی کی جنگ میں کھوئے تھے ۔۔ تقریباً 20 لاکھ جانیں دونوں طرف سے اس آزادی کی لڑائی میں قربان ہوئیں، یہ صرف ایک اللہ دتہ کی کہانی نہیں ہے تاریخ بھری پڑی ہے قربانیوں  سے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی تقریباً3 کروڑ تھی ۔۔ یہ آزادی حاصل کرکے برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا لیکن پھر ہمیشہ کے لیے ہندو  اور مسلمان  ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے اور یہ دشمنی 2 جنگوں کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ہی بھائیوں کو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا اور ادھر ہم ادھر تم کا ایسا نعرہ لگا کہ شیخ مجیب کے زیر سایہ اور ہندوؤں کی پلاننگ سے مشرقی اور مغربی پاکستان بھی الگ ہو گیا ۔

1971 میں پاکستان کا ایک حصہ بنگلادیش  بن گیا۔۔ 1972 میں بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً 7 لاکھ تھی اور آج اس کی آبادی 17 کروڑ 38 لاکھ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 6 کروڑ تھی اور آج پاکستان کی آبادی 25 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔۔ اب بات کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ برصغیر 3 حصوں میں تقسیم ہوگیا  اور آج یہ 3حصے اپنے ہی حصوں میں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔۔ قیام پاکستان کےوقت پاکستان آزاد ہو گیا لیکن معاشی لحاظ سے صفر تھا  اور ابھی تک اسی  کی تگ و دو میں مصروف ہے ۔ 

بھارت کے عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے،  بنگالی بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں، حال ہی میں بنگلہ دیش کے طلباء نے کسی حد تک کامیابی بھی حاصل  کی ، مختلف مظاہروں اور جانوں کے نظرانے دینے کے بعد آخر کار حسینہ واجد کو مجبور کر دیا کہ وہ استعفیٰ دے ،یہاں تک کہ اسے ملک بھی چھوڑنا پڑا۔۔ اور جس نے پاکستان کے ٹکڑے کیے، اس کے مجسمے کے ٹکڑے آج بنگلہ دیش کی سڑکوں پر پڑے ہیں۔ آج ہم پاکستان کی آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک بار اس وقت کو بھی یاد کر لیں جب یہ آزاد ہوا اور ہم نے لاکھوں جانیں دی۔ باجے بجا کر یا ڈانس کر کے یہ کونسی آزادی مناتے ہیں؟ کبھی گریبان میں جھانک کر دیکھیں جس ملک کو آزاد کروانے کے لیے قائد نے خواب دیکھا، دن رات محنت کی، کیا آج یہ پاکستان ویسا ہی ہے؟ قائد نے پاکستان بنایا کہ سب کو بولنے کی، اپنی رائے دینے کی، اپنے مطابق جینے کی آزادی ہو ۔۔ ایک بار سوچنا ضرور کیا ہم آزاد ہیں ؟؟؟ 

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -