حبیب جالب اور حُرمتِ حرف
عوامی شاعر حبیب جالب کی ساری زندگی آزمائشوں، پُرخار راستوں، مشکلات اور امتحانوں میں گزر گئی کیوں کہ وہ عوام کے دکھ درد کا ساتھی تھا۔ انہوں نے عوام کے حقوق کے لئے اور عوام ہی کی زبان میں شاعری کی اس لئے عوام بھی حبیب جالب سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں حبیب جالب کو اپنی زندگی میں جتنے سامعین میسر آئے اور عوامی سطح پر جتنی پذیرائی جالب کے کلام کی ہوئی شاید ہی کوئی اور ہم عصر ایسی عوامی مقبولیت حاصل کر پایا ہو۔
جالب جب اپنے مخصوص ترنم میں کسی جلسۂ عام میں اپنے اشعار سناتے تو عوام کا جوش و جذبہ دیکھنے کے لائق ہوتا۔ جالب کی بے خوفی نہ تو کسی فوجی آمریت کے خوف و دہشت کی پروا کرتی تھی اور نہ ہی جالب کو کسی سول حکمران کے فسطائی دور میں سچ کے اظہار سے روکا جا سکا۔
ہمارے ملک میں فوجی آمریتوں کے ایسے ادوار بھی گزرے ہیں کہ آزادی کے ساتھ سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ راستے، بستیاں، شہر اور گلیاں بھی فوجی آمریت کے خوف سے چپ چاپ اور خاموش ہو گئی ہیں۔ اس سناٹے کو توڑنے کے لئے جالب کی جرأت مندی قوم کی مدد کو آتی تھی۔
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیں
کسی جابر سلطان اور سنگدل حکمران کی دہلیز پر جالب اور اس کاقلم سر جھکاتا نہیں تھا اور جالب کو کبھی یہ فکر لاحق نہیں ہوئی، کبھی یہ ڈر پیدا نہیں ہوا کہ اس کے کاندھوں پر اس کا سر نہیں رہے گا۔
فوجی آمر جنرل ایوب خاں نے جب بی ڈی ممبرز کے ذریعے دھونس اور دھاندلی کے ساتھ خود کو پاکستان کا صدر منتخب کروانا چاہا اور اپنے لئے انتخابی نشان گلاب کا پھول منتخب کیا تو حبیب جالب کی یہ للکار آمریت کے ایوانوں سے ٹکڑائی۔
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ
جن کو نسبت ہی نہ تھی کوئی چمن سے یارو
فوجی صدر کے انتخابی نشان پھول کو سینۂ قوم کا ناسور لکھ دینا۔ ایسی جرأت اور حوصلے کا مظاہرہ صرف حبیب جالب ہی کر سکتا تھا۔ جالب وہ بے خوف شخص تھا جو اپنی حق گوئی کی ہر قیمت ادا کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتا تھا۔
کوئی حکمران اسے جیل بھیج دے، کوئی حکومت اسے شہر بدر کر دے یا پھر انتہائی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ظالم حکمران جالب کے لہو کو فضا میں اُچھال دینے کا فرمان جاری کر دے۔
جالب ہر تکلیف، ہر دکھ ہر رنج قبول کرنے اور ہر قربانی دینے کا فیصلہ کر چکا تھا مگر وہ اندھیرے کے پجاریوں سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کا اپنے ضمیر سے یہ عہد تھا کہ ہر حال میں اس نے عوام کے روشن مستقبل کے لئے جنگ لڑنی ہے اور یہ جنگ جیتنی بھی ہے۔ جالب کی کتاب ’’سر مقتل‘‘ حکومت نے ضبط کر لی تھی۔
اس کتاب سے ایک شعر
یہی تو ہم سے رفیقانِ شب کو شکوہ ہے
کہ ہم نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیا
یہ ہر دور کی روایت رہی ہے کہ کچھ اہل قلم مفادات سمیٹنے کی خاطر جاہ و اقتدار والوں کے طرف دار اور چاپلوس بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ با ضمیر لوگ اپنے قلم اور شاعری عوام کے دکھوں، امنگوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کے لئے وقف کر کے اپنا نام ہمیشہ کے لئے اہل حق کی فہرست میں لکھوا لیتے ہیں۔
یہاں میں اپنے قارئین کی نذر کسی اور شاعر کاشعر کرنا چاہتا ہوں۔ مگر میں دانستہ طور پر شاعر کا نام نہیں لکھ رہا۔ پہلے آپ شعر پڑھ لیں پھر میں وضاحت کروں گا کہ شاعر کا نام لکھنے سے میں نے اجتناب کیوں کیا ہے۔
سینۂ ظلم میں ہونا ہے ترازو اک تیر
کاش ایسا ہو کہ اس بار کماں میری ہو
اب بات یہ ہے کہ اس شعر کے خالق نے تو محض یہ تمنا کی تھی کہ اس بار سینۂ ظلم میں اترنے والا تیر اس کی کمان سے نکلے۔ مگر وہ تمام عمر اس خواہش پر عمل کرنے پر خود کو آمادہ ہی نہیں کر سکا۔ جالب کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ہر عہد ستم میں اپنے حروفِ حق کے تیر سینۂ ظلم میں اتارنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ شاید اسی وجہ سے خدائے قادر و قیوم نے عوام کے دلوں میں حبیب جالب کے لئے بے پناہ محبت ڈال دی۔
عوام کے دلوں میں عزت اسی سخن ور کی ہوتی ہے جو حرف فروشوں کے گروہ میں شامل ہونا گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ شاعر و ادیب چاہے ’’شہرت‘‘ کی کتنی ہی بڑی مسند پر نہ بیٹھ جائیں۔ ہم نے تو ان شاعروں ادیبوں اور صحافیوں کو خلعتِ دُشنام ہی پہنے ہوئے دیکھا ہے جو عوام کے دکھوں اور مسائل سے رشتہ توڑ کر حکمرانوں کے درباری بن جاتے ہیں۔
اہل اقتدار کے جاہ و جلال اور دہشت و خوف سے دب جانے اور دام و درہم کے عوض اپنے ضمیروں کی آزادی سے دستبردار ہو جانے والے ادیب و شاعر عوام کی نگاہوں میں عزت و احترام سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتے ہیں۔ جالب اسی لئے اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی خلقِ خدا کا محبوب رہا کہ حبس اور جبر کے ہر موسم میں اس کی آواز موجِ خوشبو بن کر پھیل گئی۔
حبیب جالب کی جو کلیات لندن سے شائع ہوا تھا۔ اسے ’’حرفِ سرِدار‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اسی نسبت سے نذرِ جالب ایک شعر
منصور کے قامت سے شناسا تو ہوئی خلق
اے ’’حرفِ سرِدار‘‘ یہ اعجاز ہے تیرا
ہوسِ لقمہ ء تر اور حرمتِ حرف دونوں میں سے ایک ہی کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ بقول اقبال دل کی آزادی یا شکم۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ آپ کو کیا چاہیے۔ حبیب جالب نے حرمتِ حرف کا انتخاب کیا اور اپنے ضمیر کی آزادی کی مشکل ترین اور ناموافق حالات میں بھی حفاظت کی۔
اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ حبیب جالب کو اہلِ پاکستان نے عزت تو بہت دی لیکن جالب اور اس کا خاندان ستم ہائے روزگار کا شکار ہی رہا۔ خونِ دل سے لکھی جانے والی شاعری پر داد تو بہت ملتی ہے، مگر دام و درہم نہیں۔ دولت حکمرانوں کے حلقہ بگوشوں، خوشامدیوں اور عرض گزاروں کو ملتی ہے۔ منصور کو تو تختہ ء دار ہی ملتا ہے۔ جالب نے خود بھی کہا تھا۔
مَیں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
مَیں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زِنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
مَیں نہیں مانتا، مَیں نہیں جانتا
حبیب جالب وہ درویش تھا جسے اپنی غربت پر بھی فخر تھا۔ غیرتِ فقر زندہ ہو تو حکمرانوں کی خیرات یا زکوٰۃ کی طرف نظر اٹھتی ہی نہیں۔
نہ مذاق اُڑا سکیں گے مری مفلسی کا جالب
یہ بلند بام ایواں، یہ عظیم بارگاہیں
جالب اپنی زندگی کی آخری سانس تک حق و صداقت کے اسی راستے پر چلتے رہے جو انہوں نے پہلے دن اپنے لئے منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کبھی کسی حکمران کی قصیدہ خوانی نہیں کی اس لئے انہیں کبھی کسی حکومت سے وظیفے اور انعام و اکرام کی امید بھی نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ مفلسی ان کے لئے کبھی حزن و ملال کا باعث نہیں بنی۔
وہ اگر کبھی ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا اور سیاہ کو سفید لکھنے پر تیار ہو جاتے تو جتنی دنیاوی دولت وہ چاہتے اپنے لئے حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن پھر عوام میں سیاسی شعور کی روشنی نہیں بانٹ سکتے تھے۔
جو خود راہزنوں کا ’’ہم خیال‘‘ بن جائے، پھر اس نے قوم کی راہبری کیا کرنی ہے۔ جالب ایک شاعر ہی نہیں بلکہ قوم کے حقیقی راہبر بھی تھے۔ ان کا سب سے بڑا جرم اپنے وطن سے محبت تھا۔ اس لئے وہ ظالم اور غاصب حکمرانوں کے خلاف سچ کا پرچم بلند نہ کرنا وطن سے غداری سمجھتے تھے۔
ستم گروں کے ستم کے آگے جالب نے اس لئے اپنا سر نہیں جھکایا کیونکہ وہ اپنی قوم کو سربلند و سرفراز دیکھنا چاہتے تھے۔حبیب جالب نے جو اشعار جسٹس رستم کیانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کہے تھے۔ مَیں نے غور سے وہ اشعار پڑھے تو مجھے محسوس ہوا کہ خود حبیب جالب کی زندگی پر بھی ان کے یہ اشعار صادق آتے ہیں۔
جسٹس رستم کیانی کی تقاریر سے جنرل ایوب خان کے ایوانِ اقتدار کے در و دیوار لرز اٹھے تھے۔ جنرل ایوب خان کے دور آمریت کے ظلم و بیداد، حق تلفیوں، ناانصافیوں اور عوام کے استحصال کے خلاف مادر ملت فاطمہ جناح اور جسٹس رستم کیانی کی آوازیں بہت طاقتور تھیں۔
اس سے مظلوم عوام میں آمریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا عزم و حوصلہ پیدا ہوا تھا۔ حبیب جالب کی شاعری نے بھی یہی کام کیا تھا:
مرتے دم تک رہا وہ تیز خرام
جادۂ صدق میں کہیں نہ رکا
اس سے لرزاں تھے ظلم کے ایواں
کجکلاہوں کے سامنے نہ جھکا