اور آخر کار، ہم جیت ہی گئے!

   اور آخر کار، ہم جیت ہی گئے!
   اور آخر کار، ہم جیت ہی گئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے شاہینو کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ایسا ہی انہوں نے بدھ کے روز کراچی میں کر دکھایا اور حیرت انگیز طور پر ایک بڑا ٹوٹل ”چیز“ کرکے نیاریکارڈ بنا ڈالا، حالانکہ بظاہر یہ ناممکن نظر آ رہا تھا کہ تین کھلاڑیوں کے پیویلن واپس چلے جانے کی وجہ سے یہ تصور کیا گیا کہ یہ میچ ہاتھ سے گیا اور ہماری ٹیم اپنی ہی ہوم گراؤنڈ میں یہ معرکہ سر نہ کر سکے گی لیکن کپتان رضوان اور نائب کپتان سلمان آغا نے یہ ہدف اس طرح حاصل کیا کہ چوتھی وکٹ کا نیا ریکارڈ بنا اور ایک ہی میچ میں ان دونوں نے آگے پیچھے سنچریاں بنا ڈالیں اگر سلمان اکبر آؤٹ نہ ہوتے تو ہر دو کا بیٹ کیری کرنا بھی ریکارڈ میں شامل ہوتا، اب یہ ٹیم آج (جمعہ) نیوزی لینڈ کے ساتھ سہ فریقی ٹورنامنٹ  کا فائنل کھیلے گی۔ شائقین نے امیدیں لگالی ہیں کہ نیوزی لینڈ سے شکست اس میچ سے زخم بھر دے گی تاہم یہ کرکٹ ہے اس کے لئے وقت پر کھیلنا اور اچھا کھیلنا لازم ہے اور سلمان، رضوان نے ثابت کر دیا کہ یہ کوئی مشکل نہیں تاہم اس کے لئے حکمت عملی بہتر بنا کر حوصلے اور دلیری سے مقابلہ کرنا ہوگا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم بہت ہی متوازن ہے۔نیوزی لینڈ ٹیم کی گزشتہ دو میچوں میں فتح ان کی متوازن تر ٹیم اور سخت محنت ہے کہ اس ٹیم میں اچھے بیٹروں کے ساتھ ساتھ آل راؤنڈرز کی کمی نہیں، جنوبی افریقہ کی ٹیم میں بھی بیٹنگ، باؤلنگ کا ایسا توازن رکھا گیا ہوا ہے، تاہم رضوان اور سلمان اکبر کے سامنے ان کی نہ چل سکی کہ انہوں نے دیکھ بھال کر کھیلا۔

سہ فریقی ٹورنامنٹ کو دیکھ کر ہی نقاد حضرات کی یہ بات درست لگتی ہے کہ ٹیم کے چناؤ کے وقت یہ خیال نہیں رکھا گیا کہ سپنرز کابھی کردار بڑا اہم ہوتا ہے، یہ نہیں کہ آپ خود ہی ٹرننگ وکٹیں بنا کر سپن باؤلنگ سے حملہ آور ہوں اور جیت جائیں ماہرین تو اب بھی اس حق میں ہیں کہ ابرار کے ساتھ مزید ایک ریگولر سپنر ہونا ضروری ہے  کہ چیمپئن ٹرافی کے لئے تیارکی گئی وکٹیں زیادہ سپورٹنگ نہیں ہیں اور ثابت ہوا کہ سپنرز نے کم سکور دیئے ہیں، نقاد حضرات نے پاکستان ٹیم کی فاسٹ باؤلنگ کو ہدف بنایا اور پوچھا کہ ان حضرات نے کیا کارنامہ انجام دیا حالانکہ باؤلنگ کے حوالے سے ہمیں زعم ہے کہ ہمارا فاسٹ باؤلنگ اٹیک دنیا کا بہترین کمبی نیشن ہے لیکن 352سکور کروانا کارکردگی کا منہ چڑاتا ثبوت ہے۔ اب تو چیمپئن ٹرافی والی ٹیم کے چناؤ پربھی نقطہ ء چینی کی گئی اور ایسا ماہرین ہی کی طرف سے کیا گیا ہے۔

میرے اپنے خیال میں اب وقت ختم ہوا، کسی تبدیلی کا امکان نہیں تو اسی ٹیم کو نئے جذبے اور ٹیم سپرٹ سے کھیلنا ہوگا۔ خصوصی طور پر فاسٹ باؤلنگ کے شعبہ کو زیادہ عقل، سوجھ بوجھ اور محنت سے باؤلنگ کرنا ہوگا اگر وقت ہو تو ٹیم میں ایک اور سپنر شامل کیا جا سکتا ہے تاہم اس سے پہلے تیار کی گئی وکٹوں کے سلوک پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ٹی20کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ شائقین کرکٹ تو اس سب کچھ کے باوجود دعا گو ہیں کہ شاہین بھرپور اڑان کی صلاحیت کے حامل ہوں۔

انگلینڈ اور پھر ویسٹ انڈیز کے ساتھ میدان میں جس طرح سپن وکٹیں تیار کرکے ٹورنامنٹ جیتے گئے اس سے شائقین خوش تو ہوئے لیکن یہ سب کھیل کی روح کے مطابق نہیں تھا، میں نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ جب ہمارے کھلاڑیوں کو دوسرے ممالک کی وکٹوں پر کھیلنا پڑا تو مشکل ہو گی اور ایسا خود ہمارے ہی ملک میں اپنی تیار کردہ وکٹوں پر بھی ہوگیا اور نیوزی لینڈ نے تو ہمارا بھرم ہی کھول دیا تھا جنوبی افریقہ کے ساتھ میچ دیکھنے والے شائقین کی تعداد مایوس کن تھی۔ اس لئے اب وکٹیں تو تبدیل نہیں ہوں گی البتہ آپ کو حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ ٹیم کو صرف ایک ریگولر سپنر پر بھی انحصار کرنا مناسب نہیں ہوگا میں خود سے کسی نام کا ذکر نہیں کرتا لیکن کیا جن دو سپن باؤلروں سے آپ نے دو سیریز جیتیں، وہ اب بے کار ہیں ان میں سے ایک کا حوالہ تو پاور بیٹنگ بھی ہے۔

اب ذرا اپنی بیٹنگ پاور کی طرف توجہ کرلیں تو مایوسی گھیر لیتی ہے، ہمارے پاس میچ وننگ بیٹرز ہیں فخر زمان کو آپ نے رد کر دیا تھا اس نے ڈومیسٹک میں خود کو منوایا اور صائم ایوب والی جگہ بھی بدقسمتی سے خالی ہوگئی تو یاد آ گیا اب ٹیم کی انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی کا یہ حال ہے کہ صائم ایوب کی جگہ کسی آزمودہ اوپنر پر بھروسہ نہ کیا اور بابر اعظم پر دباؤ ڈال کر اس کو یہ فرض سونپ دیا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ بابر اعظم کی فارم ہی واپس نہیں آ رہی، دنیا کا ریکارڈ ہولڈر بیٹر فارم کی تلاش میں گرتا پڑتا مل رہا ہے اور پھر اس پر تنقید کے نشتر بھی چلتے اور بیٹنگ آرڈر بھی تبدیل کرایا جاتا ہے حالانکہ بابراعظم کی نفسیاتی حالت کا اندازہ لگانا چاہیے اگر حالیہ میچوں میں اس سے نمبر5پر بیٹنگ کرائی جاتی تو امکانی طور پروہ سنبھل جاتا، آپ اس کو بڑی اور اہم ذمہ داری دے کر یہ توقع رکھیں کہ وہ خود بھی کھیلے اور سامنے والے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کرے۔ آج کے دور میں ایسا ممکن نہیں، جب ٹیسٹ میچوں کی ایوریج پانچ تک پہنچ چکی کہ کرکٹ تیز کی گئی تاکہ شائقین کا اعتماد اور دلچسپی بحال رہے اور ہم ابھی تک بیٹنگ آرڈر ہی پورا نہیں کر سکے۔ بابراعظم کے حوالے سے کامران غلام کا ذکر لازم ہے کہ ایک اچھے کھلاڑی کے ذہن میں تکبر جیسا خیال پیدا ہو گیا کہ پہلے ہی میچ میں خود کو بابراعظم قرار دے دیا اور اب بابراعظم بننے کے چکر میں اسی کے قدموں پر چلتے ہوئے فارم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اسے تو سلیکشن پر تشکرکا اظہار کرنا چاہیے تھا اور توجہ بابراعظم کی بجائے کھیل پر مرکوز کرنا چاہیے تھی۔ اب ذرا فخر زمان کی بات کرلیں کہ نوجوان بہت باصلاحیت ہے اور میچ ونر ہے اس نے تو بدھ والے میچ میں بھی سکور کی رفتار متعین کر دی تھی لیکن بابراعظم اور سعود شکیل کے آؤٹ ہو جانے پر خود کو وکٹ پر کھڑا نہ کر سکا کہ بابراعظم کو اس فرض پر آمادہ کیا گیا تھا وہ خود آؤٹ ہو گیا، مینجمنٹ اور کوچ حضرات کو کیا ضرورت تھی اسے ایک اینڈ پر کھڑا رہ کر فخر زمان کو کھلانے کی ہدایت کرتے وہ خود سمجھدار ہے کہ کپتان بھی رہا اگراپنی نیچرل گیم کھیل کر ”بیڈپیچ“ ختم کرے تو پھر سے نئے ریکارڈ بنائے گا۔ دنیا کے کئی کھلاڑیوں پر ایسے وقت آکر گزر چکے، بابر کا یہ برا وقت بھی گزر جائے گا۔

اب میں اپنے محسن نقوی صاحب کا بھی ذکر کرلوں کہ ان سے بھی کچھ عرض کرنا ہے میں فی الحال تنقید سے گریز کرتا ہوں ایسا چیمپئن ٹرافی کے بعد سہی لیکن ان کی توجہ ان کے اپنے کہے گئے الفاظ کی طرف دلانا ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے ملک میں کھیلوں کی بنیاد مضبوط کرنا ضروری ہے۔ کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال میں سکول سے کالج تک کا زمانہ بہت بہتر ہوتا ہے جبکہ ہر کھیل میں کلب کا نظام بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹورنامنٹ کے بعد آپ کی سپیڈ اس طرف ہونا چاہیے کلب فعال ہوں، تعلیمی اداروں میں کھیل ماضی کی طرح بحال اور مقابلے ہوں، اس کے ساتھ ساتھ محکمانہ سٹرکچر کا نظام بھی مفید ہے کہ اس سے کھلاڑیوں کو بے روزگار ہو کر کھیلنا نہیں پڑتا تھا۔ توقع ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ بورڈ کے انتظامی اور اخراجاتی امور پر بھی توجہ لازم ہے۔ ایک بار فرانزک آڈٹ بھی کرا ہی لیں، باقی قوم کی دعائیں تو اپنے ملک اور کھلاڑیوں کے لئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -