حکومت کی ایک سالہ کارکردگی……

ایک ہفتہ پہلے گزرے ہوئے 8فروری 2025ء کو اپوزیشن نے یوم سیاہ اور حکمران جماعتوں نے معاشی بحالی کا ایک سال ناممکن کو ممکن بنایا کے طور پر منایا یقینا8فروری 2024ء پاکستان کی تاریخ کا منفرد دن تھا کیونکہ 8فروری الیکشن ڈے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 8فروری 2024ء کو کیا ہوا اس پر بحث سے پہلے 8فروری الیکشن ڈے بنانے کے حوالے سے کی گئی کوششوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ 6ماہ کے لئے بننے والی نگران حکومت سال گزرنے کے بعد بھی الیکشن کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی تھی اس سے بعض حلقوں کی طرف سے الیکشن 8فروری کے حوالے سے پیش کئے گئے خدشات، تحفظات اور خطرات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے 8فروری کو الیکشن کرانے کا کریڈٹ تو بنتا ہے،عدلیہ اگر جرات مندانہ فیصلے نہ کرتی تو الیکشن 8فروری کو ہونا ممکن نہیں تھا اس لئے اختلافات جس سے مرضی کریں میری ذاتی رائے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر کا قوم کو شکر گزار ہونا چاہیے انہوں نے مختلف حلقوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے خدشات کے باوجود الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنایا اور الیکشن ہونے کے باوجود اقتدار انتقال کے حوالے سے خدشات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے تمام امور احسن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچائے۔اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ نگران حکومت نے ملک گیر انتخابات کے 8فروری پولنگ ڈے کو کیسے مینج کیا۔ پہلی بار پاکستانی قوم کو فارم 45اور 47فارم متعارف کرانے والوں کا کیا ایجنڈا تھا 8فروری کے پیچھے کیا سیاست کارفرما تھی۔ فارم 45درست تھے یا 47،یہ کم از کم میرے لئے اہم نہیں ہے مگر ڈیڑھ سو سے زائد اپیلوں کا فیصلہ نہ ہونا یا نہ کرنا البتہ لمحہ فکریہ ہے۔ایک سالہ حکومتی کارکردگی پر ترجمان مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بقول تو کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ایک سالہ کارکردگی میں نمایاں پہلوآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے۔ حکومتی موقف کے مطابق دیوالیہ ہونے سے بچ گئے۔ حکومت کا دعویٰ ہے مہنگائی 37فیصد سے 4فیصد پر آ گئی ہے قوم پوچھ رہی ہے گھی، چینی، مرغی، دالیں، پٹرول روزمرہ کی دیگر اشیاء مارچ 2024ء سے 15فروری 2025ء تک کس کی قیمت کم ہوئی ہے؟ تیسرا ماہ ہے پٹرول مسلسل مہنگا کیا جا رہا ڈالر2024ء مارچ سے اب تک کم ہونے کی بجائے اوپر جا رہا ہے۔ گندم کے کاشت کاروں سے جو کچھ ہو چکا ہے کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ چاول، کپاس، آلو لگانے والے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ ایک سالہ حکومتی کارکردگی میں ارکان پنجاب اسمبلی اور ارکان قومی اسمبلی وزراء کی تنخواہوں میں اضافے کا کریڈٹ ضرور حکومت کو جاتا ہے۔ ایف بی آر کی طرف سے اہداف پورا نہ ہونے کے باوجود 1200نئی گاڑیاں،ایف بی آر افسروں کو قائمہ کمیٹی کی مخالفت کے باوجود دینے کا کریڈٹ بھی دینا ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے پی آئی اے کو اونے پونے فروخت کرنے کی ناکامی کی کہانی کو زیر بحث نہ لانے کے باوجود کہوں گا اب تو پی آئی اے بڑے بڑے ممالک کے لئے آپریشن کھول چکی ہے اس کے باوجود پی آئی اے کے معاملات کو منظرِ عام پر لانا چاہیے۔
2024ء مارچ اور 15فروری 2025ء تک کی کارکردگی میں اگر سرکاری ملازمین کا ذکر نہ کیا جائے تو نامناسب ہوگاانہوں نے ٹیکس جمع کرانے یا حکومت کی طرف سے زبردستی وصول کرکے نیا ریکارڈ بنایا ہے پوری قوم اور سرمایہ داروں کا ٹیکس ایک طرف رہا اور پاکستان کے سرکاری ملازمین کا جمع ہونے والا ٹیکس سب سے زیادہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے ارکان اسمبلی،سینیٹرز، وزراء کی تنخواہوں میں بھاری اضافے کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ اور لاکھوں پنشنر کی پنشن پر کٹ لگانے کے باوجود سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ ہونے پر ملنے والی مراعات پر اور پنشن پر کٹ کا کریڈٹ بھی حکومت کو جائے گا۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ کی خوشخبری وزیراعظم میاں شہبازشریف کی طرف سے قوم کی سب سے بڑی خوشخبری کے طور پر اگر لیا جائے تو اس کا شکنجہ آہستہ آہستہ کسنے کو ہے۔ آئی ایم ایف کی بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے کی لازمی شرط نے ملک بھر کی بیورو کریسی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے ملاقات کی تفصیلات بھی آہستہ آہستہ قوم کے سامنے آ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی حکومت کے ساتھ آنکھ مچولی سے بھی قوم اضطراب محسوس کررہی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ کے پی کے حکومت نے ایک سال صرف سیاست کی ہے۔ بلوچستان حکومت کو دہشت گردی سنبھلنے نہیں دے رہی۔ سندھ حکومت کسی کو اعتماد میں لینے کے لئے تیار نہیں۔ پنجاب حکومت کی سربراہ مریم نواز چاچا کے ریکارڈ توڑنے کے موڈ میں لگ رہی ہیں۔ وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ نوجوانوں کے روزگارکے لئے لائحہ عمل تشکیل دیں اور سچ سننے کا حوصلہ پیدا کریں،آئی پیزکے ظلم کم کرانے میں حافظ نعیم الرحمن کی کوششوں کو بھی سراہنے کی ضرورت ہے۔آخر میں بات رہ گئی ایک سالہ کارکردگی پر کتنے نمبر دیئے جا سکتے ہیں ذاتی طور پر پاسنگ مارک سے زیادہ کچھ نہیں۔البتہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازکے درجنوں منصوبوں کے حوالے سے ایک کالم بنتا ہے وہ پھر کبھی انشاء اللہ۔
بقیہ کالم