گورنر رفیق رجوانہ اور جنوبی پنجاب کا مقدمہ
میری ذاتی خواہش یہ ہے کہ گورنر رفیق رجوانہ کو کام کرنے کا موقع ملتا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر رحیم یار خان کے خسرو بختیار کو گورنر بنانے کی جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان میں کوئی صداقت نہ ہو۔ میری اس خواہش کی وجہ یہ ہے کہ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ ایک سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا کوئی بڑا جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ پس منظر نہیں، انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ایک ورکر کی حیثیت سے خود کو منوایا اور شریف برادران نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں گورنر پنجاب کا منصب عطا کیا۔ وہ ملتان آتے ہیں تو اپنے ان کارکنوں اور دوستوں کو نہیں بھولتے جو گورنر بننے سے پہلے ان کے بہت قریب تھے۔ وہ چن چن کر انہیں پاس بلاتے ہیں یا ان کے پاس چلے جاتے ہیں خیر یہ تو ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہے، تاہم سب سے اہم بات جس کے لئے میں سمجھتا ہوں وہ اس منصب پر رہنے کے حقدار ہیں، وہ ان کی جنوبی پنجاب کے لئے جدوجہد ہے۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سکریٹریٹ بنوائیں گے، جس میں ایڈیشنل چیف سکریٹری اور ایڈیشنل سکریٹریز بیٹھیں گے تاکہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے لاہور سکریٹریٹ نہ جانا پڑے۔ اب دو روز پہلے انہوں نے نوید سنائی کہ پنجاب سب سکریٹریٹ کی سفارشات حکومت کو بھجوا دی گئی ہیں جن کی منظوری کے بعد یہاں سکریٹریٹ قائم ہو جائے گا۔
گورنر رفیق رجوانہ کی صورت میں حکومت کے پاس ایک ایسا بفر زون موجود ہے، جو جنوبی پنجاب میں چلنے والی علیحدہ صوبے کی تحریکوں کے دباؤ سے اسے بچا سکتا ہے۔ اگرچہ اس قسم کے سب سیکرٹریٹ سے نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کی تشفی نہیں ہو سکتی تاہم جب رفیق رجوانہ انہیں سرائیکی زبان میں سمجھاتے ہیں کہ مطالبات اسی طرح رفتہ رفتہ پورے ہوتے ہیں تو کچھ تشفی ضرور ہو جاتی ہے۔ گورنر رفیق رجوانہ جنوبی پنجاب کی حد تک سبھی کو قابل قبول ہیں کیونکہ وہ پورے خطے کی بات کرتے ہیں اور اس بات کو بھی نہیں چھپاتے کہ جنوبی پنجاب میں پسماندگی اپر پجاب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خسرو بختیار کی گورنر پنجاب بننے کے حوالے سے افواہیں کیوں گردش کر رہی ہیں تو اس کا جواب رحیم یار خان کے سیاسی حالات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ پورے پنجاب میں یہی وہ ضلع ہے جہاں پیپلزپارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں ریکارڈ کامیابی ملی۔ سابق گورنر مخدوم احمد محمود جنہیں آصف زرداری نے گورنر مقرر کیا تھا اور ذرائع کے مطابق شریف برادران بھی انہیں گورنر شپ پر برقرار رکھنا چاہتے تھے، مگر انہوں نے پیپلزپارٹی سے وابستگی کے باعث معذرت کرلی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے دورۂ پنجاب کا آغاز بھی رحیم یار خان سے کریں گے اور ہاں ان کا ایک بڑا جلسہ متوقع ہے ایسے میں اگر کہیں یہ خیال جنم لے رہا ہے کہ رحیم یار خان سے دوبارہ گورنر بنا کر اسے پیپلزپارٹی کا گڑھ بننے سے روکنا چاہئے تو یہ کوئی غیر منطقی بات نہیں۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ خسرو بختیار بھی علاقے کی بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور کئی بار رکن قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں، لیکن جو کام گورنر رفیق رجوانہ کر رہے ہیں، وہ شاید کوئی اور نہ کر سکے، وہ جنوبی پنجاب کے عوام کی بھرپور ترجمانی کر رہے ہیں۔ وہ جب بھی ملتان آتے ہیں، ان سے کسی کا بھی ملنا انتہائی آسان ہوتا ہے۔ بس وہ سرکٹ ہاؤس ملتان پہنچ جائے گورنر صاحب کھلی بانہوں سے اس کے منتظر ملیں گے۔
مسلم لیگی قیادت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں تختِ لاہور کی اصطلاح بہت زیادہ منفی تاثر کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ ملتان کو اتنا بڑا میٹرو بس منصوبہ دینے کے باوجود اپوزیشن یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ جنوبی پنجاب کے سارے وسائل اورنج ٹرین منصوبے پر خرچ کئے جا رہے ہیں قومی اسمبلی کے حلقہ 153 کے ضمنی انتخاب کی ساری انتخابی مہم تحریک انصاف نے اسی نکتے پر چلائی ہے۔ ایسے میں جب تک عملی اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے اور لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے نظر آنے والے فیصلے نہیں ہوتے تو یہ تاثر گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ اس حوالے سے گورنر رفیق رجوانہ حکومت کی بہتر وکالت کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس خطے کی محرومیاں کیا ہیں اور کون سے فوری اقدامات عوام کو ایک امید بھرے مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں گورنری کا منصب سنبھالنے کے بعد آغاز میں انہوں نے ایک محتاط رویہ اختیار کیا اور دیکھ بھال کے چلتے رہے مگر اب وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ وہ اس خطے کے عوام کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے حق میں بڑی اچھی پیش رفت ہے کہ رفیق رجوانہ کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے لوگوں میں یہ احساس ابھر رہا ہے کہ حکومتی صفوں میں کوئی ان کی نمائندگی کرنے والا بھی موجود ہے۔ ملتان سے ایک اکلوتے صوبائی وزیر کی نا اہلی کے بعد صوبائی کابینہ میں کوئی نمائندگی موجود نہیں، نمائندگی کا سارا بوجھ گورنر پنجاب کے کاندھوں پر موجود ہے اور وہ بڑی ذمہ داری سے اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں۔
ملتان کے لئے گورنری یا وزارتِ اعلیٰ کوئی نئی بات نہیں حتیٰ کہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج بھی اس شہر کے حصے میں آ چکا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس شہر اور علاقے کی وکالت کسی نے نہیں کی۔ حنیف رامے نے پنجاب کا مقدمہ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔ لیکن جنوبی پنجاب کا مقدمہ لڑنے کے لئے کبھی عوام کو کوئی اچھا ’’وکیل‘‘ نہیں مل سکا سب نے اقتدار میں جانے کے بعد اپنا مقدمہ لڑا اور زبان بندی کی شکل میں قیمت ادا کی۔ اسٹیبلشمنٹ نے جب چاہا زبان کھولی وگرنہ بند ہی رکھی۔ حیرت ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تو جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حوالے سے چپ سادھ لی جونہی منصب سے سبکدوش ہوئے علیحدہ صوبے کا ورد کرنے لگے، یہی وہ دو عملی ہے جس نے اس خطے کے عوام کو ہمیشہ محرومی سے دو چار رکھا ہے۔ سال ہا سال کی تاریخ اور واقعات کے بعد یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یہاں چوکے چھکے لگانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ البتہ ٹک ٹک کر کے سنگل رنز ضرور بنائے جا سکتے ہیں ملک رفیق رجوانہ مجھے اسی طرح کے سست رفتار بیٹسمین نظر آ رہے ہیں۔ وہ کوئی بڑا دعویٰ کرنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے دعوؤں کی تکمیل سے یہاں کے لوگوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ انہوں نے علیحدہ صوبے کے خواب کا بار بار تذکرہ کرنے کی بجائے سب سول سکریٹریٹ کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیا ہے اور اس کے لئے بہت سا کام بھی کر چکے ہیں۔ وہ ملتان میں لاہور کی طرز پر فاؤنٹین ہاؤس بھی قائم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں اور تعلیمی و صحت کی سہولتوں کو بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ان کی وزیراعلیٰ شہباز شریف سے بڑی انڈر سٹینڈنگ ہے جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، اس کافائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ملتان اور جنوبی پنجاب کے لئے بہت سے منصوبے اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام کا حال تو اب ان درویشوں جیسا ہے جو غیبی امداد کے منتظر رہتے ہیں، ایسے میں گورنر پنجاب رفیق رجوانہ اگر اقتدار کے ایوانوں میں ان کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں تو یہ غنیمت ہے کیونکہ عہدوں کو بچانے کے لئے عوام کے حقوق کی آواز بلند نہ کرنا جنوبی پنجاب کے اقتدار پرستوں کی دیرینہ عادت رہی ہے۔