گورنر ہاؤس میں یوم خواتین کی تقریب
یومِ خواتین بہت وسیع پیمانے پر منایا گیا۔ اس خاص دن کی مناسبت سے پورے لاہور میں چھوٹی بڑی درجنوں تقریبات منعقد کی گئیں، لیکن گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کی زیر صدارت منعقد ہونے والا فنکشن ہر لحاظ سے منفرد اور شاندار تھا۔ اس فنکشن کا اہتمام فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ریجنل چیئرمین عرفان یوسف نے کیا تھا۔
نامور خواتین جیسے ناصرہ جاوید اقبال، شائستہ پرویز ملک، پنجاب کی وزیر خزانہ عائشہ غوث پاشا کے علاوہ پنجاب اسمبلی کی خواتین نے بھی بھرپور نمائندگی کی۔
سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر افتخار علی ملک نے بھی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے یومِ خواتین کے حوالے سے بہت خوبصورت تقریر کی، پاکستانی خواتین کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا اور بتایا کہ دنیا بھر میں خواتین کی سب سے زیادہ عزت اور تکریم کا حکم اسلام نے دیا ہے۔
خواتین کی خود مختاری کے لئے ضروری ہے کہ معاشرہ دل سے خواتین کی عزت کرے اور سماجی و معاشی سرگرمیوں میں ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے۔ بھٹے پر مزدوری کرنے والی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے گورنر پنجاب کچھ جذباتی بھی ہو گئے۔
سارک چیمبر کے نائب صدر افتخار علی ملک نے بتایا ویسے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا سال ہی خواتین کے حقوق کو نمایاں کیا جائے۔ برصغیر خصوصاً پنجاب کی ستر فیصد دیہی آبادی میں خواتین بہت فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ گھر سنبھالنے کے علاوہ کھیتوں میں بھی اپنے مردوں کا قدم سے قدم ملا کر ساتھ دیتی ہیں۔
اب تو کھیتی باڑی کے کاموں میں مشینوں نے اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن پہلے تو بیج اور پنیری وغیرہ کا کام خواتین ہی انجام دیتی تھیں۔ ایک دن میں اسلام آباد سے لاہور آ رہا تھا۔ شدید گرمی تھی، لیکن کھیتوں میں خواتین گرمی اور حبس سے بے نیاز چاول کی پنیری لگانے میں مصروف تھیں۔
اب دیہی علاقوں سے لوگوں کے شہروں کی طرف آنے سے خواتین اپنی بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں ہنر بھی سکھا رہی ہیں۔
اب تو پاکستان کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں خواتین نے اپنے فن کا لوہا نہ منوایا ہو۔صنعت و تجارت میں پہلے خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں، لیکن اب خواتین باقاعدہ کامیابی سے بزنس سنبھال رہی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شپ بریکنگ انڈسٹری میں بھی سب سے پہلے خواتین نے کامیابیاں حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا تھا ۔محترمہ سلمیٰ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے، ویمن چیمبر آف کامرس کا آئیڈیا بھی میں نے اس وقت ان سے ہی حاصل کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر منتخب ہوا تو میں نے کاروباری خواتین کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور سہولتیں فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو ہر آنے والے صدر نے نہ صرف قائم رکھا، بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔
ایکسپورٹ کے شعبے میں کاروباری خواتین کی خصوصی حوصلہ افزائی کی گئی اور عالمی نمائشوں میں خواتین کی بنائی ہوئی مصنوعات کے نہ صرف سٹال لگوائے، بلکہ بعد میں ایکسپورٹ کے شعبے میں خواتین کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں انہیں فیڈریشن آف پاکستان کی طرف سے ٹرافیوں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا اور ہر سال باقاعدگی سے سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرنے والی خواتین کا انتخاب کر کے صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھوں میڈل اور ٹرافی دلوا کر ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
سمیڈا کے ادارے نے جہاں اور بہت سے اچھے کام کئے، وہیں اس نے ’’ویمن انٹر پرینیور انکوبیشن سینٹر‘‘ بھی بنائے۔ ان کی اہمیت بہت زبردست تھی۔ یہاں کاروبار سے دلچسپی رکھنے والی خواتین کو باقاعدہ بزنس آفس، جو تمام سہولتوں سے آراستہ ہوتے تھے، فراہم کئے جاتے تھے، بلکہ ان کی مصنوعات کی نمائشیں باقاعدگی سے لگائی جاتی تھیں جہاں سے انہیں بزنس کمیونٹی بزنس آرڈرز بھی دیتی تھی جس کی وجہ سے کاروباری خواتین کے منافع میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
ساتھ ہی جو خواتین کاروباری اسرار و رموز سے بے خبر ہوتی تھیں، ان کی تربیت کے لئے باقاعدگی سے کاروباری ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا تھا، جس کے ذریعے انہیں قرضہ لینے، مارکیٹنگ، مینو فیکچرنگ کی جدتوں اور امپورٹ ایکسپورٹ کے بارے میں بھی مکمل معلومات دی جاتی تھیں۔
بعد میں سمیڈا نے فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس اہم اور مفید انکوبیشن سینٹرز کو بند کر دیا جس سے کاروباری دنیا میں داخل ہونے والی نئی خواتین کی رفتار سست پڑ گئی۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پنجاب اپنے آئندہ بجٹ میں ویمن انٹرپرینیور انکوبیشن سینٹر کے قیام کے لئے رقم مختص کرے۔ وفاقی حکومت بھی ہر دارالحکوت میں کم از کم ایک سینٹر اپنے خرچ پر کھولے۔
افتخار علی ملک نے اس ضمن میں مزید تجاویز دیتے ہوئے کہا، کاروباری خواتین کے لئے انٹرن شپ کی بہت اہمیت ہے۔ مغربی ممالک کی معاشی ترقی میں انٹرن شپ کا کردار بہت اہم ہے، اب پنجاب میں بھی انٹرن شپ کی اہمیت کو محسوس کیا گیا ہے۔ ویسے تو وفاقی حکومت نے باقاعدہ انٹرن شپ کی خصوصی سکیم شروع کر رکھی ہے، لیکن اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
میری تجویز ہے کہ ہمارے کاروباری حضرات انٹرن شپ کا عمل گھر سے شروع کریں اور اپنے کاروباری امور چلانے میں جہاں بیٹوں کو اولیت دی جاتی ہے، وہیں بیٹیوں کو بھی مساوی مواقع مہیا کئے جائیں۔
خود میں اپنے گھر کی مثال دیتا ہوں کہ ملک محمد شفیع کے ہسپتال میں عوام کی خدمت کے لئے میری دو بہنوں نصرت ملک اور فوزیہ ملک کے علاوہ گارڈ رائس اور فیکٹری میں باہر سے تعلیم یافتہ میری بھتیجیاں بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
سٹوڈنٹس میں کاروباری رجحان زیادہ ہوتا ہے، اس لئے خواتین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ’’بزنس کمپین پلان‘‘ کا ماہانہ سلسلہ شروع کیا جائے جس میں طالبات کے کاروباری آئیڈیا بزنس کمیونٹی کے سامنے رکھے جائیں، اس طرح بہت سے نئے آئیڈے، نئی کاروباری خواتین کو متعارف کروانے کا ذریعہ بن جائیں گے جس سے خواتین کی معاشی خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔