مارکیٹ سے خریداری کرتے صارفین کے حقوق۔ ۔ ۔
جب بھی آپ دکان سے کوئی خریداری کرتے ہیں تو وہ محض ایک معمولی لین دین نہیں، بلکہ ایک قانونی معاہدے کے تحت ایک کاروباری لین دین وجود میں آتا ہے۔ اس کا مطلب دراصل یوں ہوا کہ اگراس لین دین میں کسی قسم کی کوئی خرابی یا گڑ بڑ ہے تو"صارف عدالت" سے رجوع کر کے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں بھرپور طریقے سے قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ نہ تو کسی خریدار کو اور نہ ہی تیار کنندگان کو کسی قسم کے جھگڑے میں پڑنا پڑتا ہے۔بلکہ انتہائی شفاف اور قانونی طریقے سے تمام ثبوتوں اور گواہوں کومدِّنظر رکھتے ہوۓ انصاف کی بنا پر فیصلہ آتا ہے۔
پنجاب پروٹیکشن کنیومر ایکٹ 2005 کے تحت پنجاب میں اگر کسی بھی صارف کو خراب اشیاء خریدنے کی وجہ سے، یا کوئی ناقص سروس ہائیر کرنے کی وجہ سے کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہوتا ہے، تو اس نقصان کا تمام ذمہ دار مینوفیکچرر یا سروس مہیا کرنے والا ہوگا۔ بشرطیکہ وہ نقصان اس ناقص چیز کی خرابی کی وجہ سے پیش آیا ہے اور اگر خرید کردہ چیز میں وہ خرابی نہ ہوتی تو، نقصان پیش آنا ممکن نہ تھا۔کبھی کبھارایسا بھی ہوتا ہے کہ ناقص اشیاء، سروس حاصل کرنے سے کوئی نقصان تو پیش نہیں آتا۔ مگر اصل نقصان تو اس پیسے کا ہوتا ہے، جو اس چیز کو خریدنےمیں ضائع چلے جاتےہیں۔ اس تمام صورتِحال میں بھی اسی قانون کی ایک شق کے مطابق مینوفیکچرر اور سروس فراہم کرنے والےکوصارف کو پیسے واپس کرنے ہوتے ہیں یا اس کا نقصان بھرنا ہوتا ہے۔
جہاں تک قانون کی بات ہے، اس میں صرف صارفین کی حفاظت کی خاطر کچھ اصول درج ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں، صارف مینوفیکچرر کو قانون کی یہ شق تھما دے۔ درحقیقت تو صارف کو اپنے مسئلے کے حل کے لئے صارف عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جو کہ خاص صارفین کے مسائل کو سنتی ہے۔ اس عدالت سے رجوع کرنے کا طریقہ کافی حد تک آسان اوردوسری عدالتوں سے مختلف ہے۔صحیح طور پر اس عدالت میں مسئلہ لے جانے کے لئے، نقصان کی صورت میں پہلے مینوفیکچرر یا سروسر سے خود ذاتی طور پر رابطہ کر کے اس سے مسئلے کے حل کے لئے دعوت اور کچھ وقت دینا پڑ تا ہے۔کئی مسائل اسی مرحلے میں ہی نمٹ جاتے ہیں لیکن ناکامی کی صورت میں صارف عدالت سے رابطہ ممکن ہے۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ صارف عدالت کو رجوع کرنے کی زیارہ سے زیادہ میعاد 30 دن ہے۔
آپ کو اپنے حقوق جان کر انتہائی خوشی ہو رہی ہو گی۔مگر اچانک یہ بھی خیال آ رہا ہو گا کہ اکثر بڑی بڑی کمپنیاں اپنے شرائط و ضوابط میں بڑی ہوشیاری سے درج کروا دیتی ہیں کہ"نقصان کی صورت میں ہم ذمہ دار نہ ہوں گے"۔ لیکن خوشی کی بات تو یہ ہےکہ مندرجہ بالا قانون کے تحت ایسی شق کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر نقصان ناقص مصنوعات یا سروس فراہم کرنے کی وجہ سے پہنچا ہے تو اس قانون کے تحت ایک "کنیومر پروٹیکشن کونسل" بھی تشکیل دی گئی ہے جس کا خصوصی کام مارکیٹ میں موجود خطرناک اور ناقص مصنوعات کی روک تھام ہے۔ اگر کسی صارف کو عدالت جانے میں مشکل درپیش آتی ہے تو وہ صارف کونسل یا اتھارٹی کو بھی شکایت کر سکتا ہے اور اتھار تی کے پاس یہاں تک اختیار ہے کہ وہ مینوفیکچرر کو 50,000 روپیے تک کا جرمانہ کر سکے مگر جہاں تک عدالتی کاروائی کی بات ہے تو اس کے ذریعے نہ صرف جرمانہ بلکہ "لیگل کاسٹ" (کیس پر ہونیوالا خرچہ )بھی ملتا ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔