رمضان المبارک: نیکیوں کی برسات!
اُمت مسلمہ رمضان کے مقدس مہینہ میں قدم رنجہ ہے رمضان کا مہینہ آتے ہی نیکیوں کی کھیتیاں لہلہا اُٹھتی ہیں اور برائیوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔ گویا عبادتوں کا موسم بہار آ جاتا ہے اور مسلم معاشرے میں ایک نئی زندگی دوڑ جاتی ہے، جو رحمتوں اور برکتوں سے لبریز ہوتی ہے اس لئے ہم سب اس ماہ مبارک کا نہایت شرح صدر کے ساتھ خیر مقدم کرتے ہیں اس لئے کہ یہی مہینہ ہے جو ایمان و عمل میں جلا بخشتا ہے۔ اخلاق الٰہیہ کا خوگر بناتا ہے، صبرو اخلاق اور روحانی طاقتوں میں اضافہ کرتا ہے اور مظلوم انسانیت کے لئے ہر سال پوری دُنیا پر یہ سایہ فگن ہوتا ہے اس لئے ہر سال پوری دُنیا کے مسلمان اس مبارک مہینہ کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ یہ عبادتوں کا عالمی اور اعمال صالحہ کا جشن عام کا وقت ہوتا ہے اس میں امیرو غریب ایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے روزہ ایک نہایت اہم ستون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے ہر عاقل و بالغ فرد پر2ہجری میں فرض کیا ہے اور اس کا فرضیت پر اُمت کا اجتماع ہے جو اس کا منکر ہو گا وہ مرتد شمار ہو گا۔ اس روزہ کا وجود پانچ ہزار سال پہلے ملتا ہے، البتہ اس وقت کے روزوں کی کیفیت الگ ہوتی تھی یہ روزہ جو اُمت محمدیہ پر فرض کیا گیا اور اس کے استقبال کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ یہی ایک ایسی عبادت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر و ثواب میں اپنے طور سے دوں گا“۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دیگر اوقات و ایام پر روزے کو شرف و فضیلت بخش کر اس کے ہر لمحات کو اپنے مومن بندوں کے لئے نہایت قیمتی سرمایہ قرار دیا ہے نیز جو جسم انسانی کے ڈھانچے سے لے کر پورے مسلم معاشرے میں اس کے ظاہری اخلاق و عادات نیز سلوک و عبادات میں جلا و نکھار پیدا کرتا ہے اور باطن میں روحانیت اور تقویٰ پیدا کرتا ہے، روزے کا استقبال اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ وہ عام ا نسانوں میں خوش دلی، رضائے الٰہی نرم خوئی اور برو احسان پیدا کرتا ہے۔ روزے کی یہی یکسانیت مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھی جاتی ہے۔
مگر کیا دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح سے ہم حلوہ سازی و آتش بازی سے استقبال رمضان کریں اور ہزاروں لاکھوں روپیہ اس رسم بیجا پر پانی کی طرح صرف کر دیں جس سے غلط رسم و رواج، بدعات و خرافات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جن سے غلط رسم و رواج، بدعات و خرافات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جن کا عہد رسولؐ و صحابہؓ میں نام و نشان تک نہ تھا۔
حضرت سلمان فارسی نے ایک مفصل روایت بیان کی ہے کہ شعبان کے آخری دن رسول اللہﷺ نے وعظ فرمایا کہ اے لوگو تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے وہ بڑا بابرکت مہینہ ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اس کے روزے کو اللہ تعالیٰ نے فرض اور اس کی رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے جو کوئی رمضان میں کسی نیک کام سے اللہ کا قرب حاصل کرے گا تو ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں فرض ادا کیا اور جس نے اس ماہ میں فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے غیر ر مضان میں ستر فرض ادا کیا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اس کا ثواب جنت ہے اور یہ ہمدردی کا مہینہ ہے اس میں مومن کی روزی بڑھا دی جاتی ہے۔
چنانچہ رسول اللہﷺ کو رمضان کی آمد سے انتہائی خوشی ہوتی اور آپ شرح صدر سے اس کو خوش آمدید کہتے۔ صحابہ کرام کو بھی اس کے فضائل و خصوصیات سے آگاہ فرماتے تاکہ اس مقدس مہینہ میں ان کے اعمال و عزائم میں پختگی پیدا ہو نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عہد رسول اللہﷺ میں جب اس ماہ مبارک کا درود مسعود ہوتا ہے تو لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیا کرتے تھے، استقبال ر مضان ہی کے سلسلے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر ہماری اُمت کو اس روزے کی اہمیت و غایت معلوم ہو جائے تو وہ تمنا کرے گی، کاش پورا سال روزہ رہتا، لہٰذا اس مبارک مہینہ میں ہمیں چاہئے کہ اس کے تقاضوں کو پورا کریں نہ کہ منہ بسوریں اور چند گھنٹے کھانے پینے سے رُکے رہنے کے لئے حیل و حجت کریں اس لئے اگر آدمی غلط اعمال اور مکرو فریب سے باز نہ آئے اور حالت روزہ میں بھی چھوٹے بڑے جھوٹ بولا کرے تو رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو جھوٹ اور غلط اعمال ترک نہ کرے تو اللہ کو اُس کے کھانا اور پینا چھوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں گویا کہ وہ اللہ کی نظر میں روزے سے نہیں بلکہ فاقے سے ہے۔
حضرات! جس نے اس فرمان رسول کی روشنی میں ماہ رمضان کا استقبال کیا اور رسول اللہﷺ کے اسوہئ حسنہ کو سمیٹے رکھا کہ کس طرح رمضان آتے ہی آپ اس کے لئے کمر بستہ ہو جاتے تو یقینا رمضان بھی اس کے لئے بے حد برکات و حسنات کی سوغات پیش کرے گا اور دین و دُنیا میں وسیلہ نجات بنے گا اور جس نے رمضان کا خلوص دل اور صدق نیت اور پورے اعمال جو ارح سے استقبال نہیں کیا اور اس کے عالمی پیغام کو نہیں سمجھا تو اس کے لئے رمضان کا آنا اور گزر جانا سب برابر ہے اور وہ جملہ برکات رمضان سے محروم رہے گا اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ اسلام کو موسمی دین اور سیزنل عبادت کا نام ہے اور سیزن آتے ہی لوگ ٹوپیاں لگا کر مسجدوں کا رُخ کریں اور تراویح کی نماز پڑھ کر فرائض چھوڑے رہیں اور سیزن ختم ہوتے ہی مساجد اور عبادات سے تعلق ختم کر لیں جیسا کہ آج کل دیکھا جاتا ہے، بلکہ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمان ایک ماہ پابندی سے روزہ رکھ کر اپنے ایمان کی بیٹری کو چارج کر لے جو اسے گیارہ ماہ تک ایمان و یقین کی روشنی اور طاقت و توانائی دیتا رہے اور رنج ہو یا خوشی، سچا پکا مسلمان بن کر رہے، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ عبادات میں کثرت ہو ذکر و اذکار اور رجوح الی اللہ بڑھ جائے، تلاوت بھی کثرت سے کی جائے، صدقات و خیرات کا جذبہ بڑھ جائے یہ سارے اعمال رسول اللہﷺ روزہ شروع ہونے سے پہلے بکثرت کرنے لگتے تھے۔ اس ماہ مبارک کا استقبال کر کے خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور اپنے مستحقین کو بھی فائدہ پہنچائیں۔٭