جنگ بندی ، پیوٹن کی شرائط سامنے آگئیں

ماسکو ( ڈیلی پاکستان آن لائن) روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے خلاف جنگ میں جنگ بندی کے اصولی طور پر حامی ہیں، تاہم اس پر حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے کچھ سوالات کے جوابات درکار ہیں۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق پیوٹن کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے ان پر جنگ بندی کے معاہدے کو مسترد کرنے کی تیاری کا الزام عائد کیا اور ٹرمپ نے پیوٹن کے بیان کو "امید افزا مگر نامکمل" قرار دیا۔
دو روز قبل سعودی عرب کے شہر جدہ میں امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ شرائط پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں فوری طور پر 30 روزہ عبوری جنگ بندی پر زور دیا گیا۔
بیان میں قیدیوں کے تبادلے، شہری قیدیوں کی رہائی اور زبردستی منتقل کیے گئے یوکرینی بچوں کی واپسی جیسے نکات کو شامل کیا گیا، تاہم اس میں روس پر پابندیوں یا یوکرین کی سلامتی کی ضمانتوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔
پیوٹن نے اس پر ابتدائی طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا، لیکن دو دن بعد بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے جنگ بندی کے اصولی جواز کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کچھ نکات پر بات چیت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم جنگ بندی کے تصور سے متفق ہیں، لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر امریکہ سے تبادلہ خیال کرنا ہوگا، اور شاید صدر ٹرمپ سے بھی اس پر گفتگو کرنی پڑے۔"
پیوٹن نے جنگ بندی کے حوالے سے تین اہم سوالات اٹھائے جو ان کے بقول ماسکو کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
پہلا سوال یوکرین کے ان فوجیوں کے بارے میں ہے جو روس کے علاقے کورسک میں موجود ہیں۔ پیوٹن نے کہا کہ کیا وہ بغیر لڑے وہاں سے نکل جائیں گے، یا یوکرینی قیادت انہیں ہتھیار ڈالنے کا حکم دے گی؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر جنگ بندی عمل میں آتی ہے تو یوکرین اس دوران اپنی فوجی قوت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ پیوٹن نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس وقفے کے دوران یوکرینی افواج نئی بھرتیاں کر کے مزید ہتھیار حاصل کر سکتی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس جنگ بندی کے دوران اس بات کی ضمانت کیسے دی جائے گی کہ یوکرین نئے فوجی دستے تیار نہیں کرے گا؟
تیسرا نکتہ جنگ بندی کی نگرانی سے متعلق ہے۔ پیوٹن نے استفسار کیا کہ اس 2000 کلومیٹر طویل جنگی محاذ پر جنگ بندی کے نفاذ اور کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو کیسے جانچا جائے گا اور اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟
پیوٹن کے بیان کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف روس پہنچے تاکہ ماسکو حکام سے ملاقات کر سکیں۔ ٹرمپ نے پیوٹن کے بیان کو "حوصلہ افزا مگر نامکمل" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "اب دیکھنا یہ ہے کہ روس واقعی امن کے لیے تیار ہے یا نہیں۔"
دوسری جانب یوکرین نے پیوٹن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ زیلینسکی نے کہا کہ "پیوٹن صدر ٹرمپ کو براہ راست یہ کہنے سے خوفزدہ ہیں کہ وہ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور یوکرینی شہریوں کو مارتے رہنا چاہتے ہیں۔"
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکہ روس کے مطالبات کو تسلیم کرتا ہے تو یوکرین کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا سوائے اس کے کہ وہ ان شرائط کو قبول کرے۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے سینئر ماہر کیئر جائلز نے الجزیرہ کو بتایا کہ "اگر ماضی کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو امریکہ روس کے مطالبات کی حمایت کر سکتا ہے۔"