”سُنجے دل والے بوہے“

”سُنجے دل والے بوہے“
”سُنجے دل والے بوہے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”باس جی اوہنوں سمجھا لو،میں ایویں پھینٹی لادیاں گا“ میں سر جھکا کے مسکراتا اور کہتا ”چل چھڈ یار ہتھ ہولا رکھ“ اور وہ بھی ہنسنے لگتامیں سوچتا یا ر یہ کتنا ”شانت“بندہ ہے، ہنستا ہے تو آنکھیں بھی مسکراتی ہیں۔مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ غم ِروز گار کے علاوہ کیا کیا جھمیلے من میں پالے ہوئے تھا۔ اس کے جوان بیٹوں سے ملاقات ہوئی تو وہ خاصے ”ویل سیٹلڈ“لگے۔پھر اندازہ ہوا یار یہ بندہ کتنا  ”سیلف میڈ“ خوددار تھا۔جنہیں اس نے کمانا سکھایا ان پر آخری دم تک بوجھ نہیں بنا۔ واہ یار جاوید اشرف کمال بندہ نکلا۔ میں تمہیں کتنا ”مس کیلکولیٹ“ کرتا رہا۔ تم اپنے گھر اپنی دوائیوں کے لئے خود لڑتے رہے بچوں پر بوجھ نا بنے۔ میں اپنے 32سالہ تعلق میں یہ اندازہ ہی نہ کر سکا کہ جاوید اشرف جو ہر روز کمپیوٹر پر اپنا ہیلمٹ اور سامان رکھ کر میرے پاس آتا ہے۔دراصل وہ جو کہتا ہے میرے ساتھ ”32“ سال کی دوستانہ  ”اونر شپ“ کے ساتھ کہتاہے۔اپنے انتقال سے فقط ایک گھنٹے قبل تم واک کے لئے نکلے تو رجسٹرپر  اپنی حاضری میں نکلنے کا وقت سوا سات کی بجائے پونے آٹھ لکھ کر گئے۔یعنی وہاں بھی تم نے اپنے واک کے وقت کو ادارے کے کھاتے میں نہیں ڈالا۔اؤے جاوید اشرف تم کیا تھے یار،بظاہر ایک عام سے کارکن لیکن اندر سے ایک مکمل ادارہ،اب مجھے بتا میں کس کے کمرے میں آنے پر کہوں گا ”گل سن ہر ویلے غصے نہ رہا کر“اور کون کہے گا با س جی مجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی اور جو تم خود غلط بات کر گئے،ہمیں اس طرح چھوڑ گئے،جاتے ہوئے نہ الوداع کہا نہ سلام دعا کی۔ مجھے یاد ہے روزنامہ پاکستان کے 1990 کی ابتدائی ٹیم میں تم میرے ساتھ آئے تھے۔سرور صاحب،حاجی ندیم فوٹو گرافر،عباس تبسم صاحب ہم سے کتنے ینگ تھے۔ آج جب ہم سب بابے ہوگئے تب بھی تم جوان تھے۔ بائی پاس کے باوجود تم سب میں جوان لگتے تھے۔یار باس جی تم تو بڑے دل والے تھے چند روز قبل مسجد میں تمہارے ساتھ مذاق پر حاجی ندیم نے بُرا منایا تو میں نے سوچا نماز کے بعد تمہیں کہوں گا حاجی کو منا لو۔سلام پھیرا تو تم حاجی کو مسکرا مسکرا کے کچھ کہہ رہے تھے حاجی بھی مسکرا رہا تھا۔میں نے شکر کیا معاملہ ”سیٹلڈ ہو گیا تم نے تو نماز ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کیا ”حقوق اللہ“ سے پہلے حقوق العباد ادا کر دیا۔


ہر روزعلی الاصبح تمہارا صبح بخیر کا میسج ملتا،میں کبھی دیکھتا کبھی نہ دیکھتا۔کوئی اچھی دُعا،کوئی نصیحت،کوئی کلام الٰہی کا ٹکڑا۔ہم لوگ تو اب مشین ہیں ساتھ والا مر جائے میّتیں اٹھاتے ہیں،کاندھے دیتے ہیں،فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھر ٹوٹی پھوٹی دو روٹیوں کو یقینی بنانے کے لئے ایک دوسرے کی منافقتوں میں کوہلو کے بیل کی طرح جُت جاتے ہیں۔ ہمیں میّتیں اٹھانے کی عادت پڑ گئی ہے اور ہم یہ عادت نبھاتے رہیں گے جب تک ہم خود میت نہیں بن جاتے۔ اللہ سورۃ التکاثر میں کہتا ہے ”ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا سمیٹنے کی ہوس میں ہم غافل ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ ہم قبروں تک پہنچ جاتے ہیں“۔ یار جاوید میں جانتا ہوں قبروں تک پہنچنے کایہ سفر کتنا دشوار اور صبر آزما ہے لیکن میں گواہی دیتاہوں اللہ اور اسکے رسولؐ کو تو تم نے ہمیشہ زرق حلال کی جدوجہد کی، جو ملا اس پہ قناعت کیا۔ شکوہ نہ گلا، تمہیں ہمیشہ صابرشاکر ہی دیکھا۔  میں گواہی دیتا ہوں میرا لیاقت کھرل اپنے خاندان کی چھتر چھاں تھا۔ اس نے ایک دور افتادہ گاؤں کے مکینوں کو لاہور میں ہر طرح کا تحفظ دیا، آرام دیا۔ 


میرا قلم نہیں چل رہا، ہاتھ کپکپا رہے ہیں،آنکھیں دھندلی ہوگئی ہیں کیسے مان لوں تم نہیں رہے۔ ابھی تو ہم قدرت اللہ چوھری صاحب جیسے درویش کی میت کو کاندھا دیکر سنبھلے نہیں تھے کہ تم بھی داغ مفارقت دے گئے۔ سوچا چودھری قدرت اللہ جیسے عظیم صحافی اور انسان پر تو جو بھی لکھے جتنا بھی لکھے کم ہے۔ دنیا انہیں یاد کر رہی ہے۔ وہ عظیم تھے۔ آج کی حرص و غرض کی غلاظت میں  لتھڑی صحافت میں پاک دامن تھے۔لیکن میں جانتا ہوں میرا جاوید اشرف بھی ہیرو تھا۔ ایک فاقہ مست، دنیا کو جوتے کی نوک پررکھنے والا مرد قلندر تھا۔ ابھی تمہاری محبت کے فرض اور اپنے قلم کا قرض کیسے ادا کروں، کہاں سے وہ دکھ لاؤں جو میرے لفظوں میں ماتم کرتا نظرآئے۔ کہاں سے وہ اظہار لاؤں جو میرے اندر بپاشام غریباں کا اظہار کرسکے۔ کیسے بتاؤں کہ میرے قلم سے یہ سیاہی نہیں آنسوؤں کی نہ رکھنے والی جھڑی ہے۔کیسے کہوں کہ تمہارے جانے سے مجھے موت کا ایک نیامطلب ایک نیا معنی ملا، لکھا نہیں جارہا، میں اگر اپنے سنجے دل والے بوہے نہ بھی ڈھوؤں تو تم نے نہیں آنا۔ میں اپنی امید کی شمعیں گل کر چکا، اپنی حسرتوں کے مئے میناؤ ایاغ بڑھا چکا۔ اپنے بے خواب  کواڑوں کو مقفل کر رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں تم وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔

مزید :

رائے -کالم -