”دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے “دشمنیاں ہزاروں جانیں لے گئیں،پولیس نے بھی خوب حصہ ڈالا
لاہور (میاں رﺅف/ تصاویر ذیشان منیر) صوبائی دارالحکومت میں دشمنیوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی ،قیام پاکستان کے فوری بعد "خونی دشمنیوں " کے ناسور نے جنم لیا ،ان دشمنیوں کے نذر ہو کر ہزاروں ماﺅں کے لخت جگر لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں خواتین و بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے، 65سالہ تاریخ کے دوران کم و بیش 100متحارب دشمن دار گروپ منظر عام پر آئے جن میں سے اکثریت ایسے مخالفین کی ہے جن کی دشمنی نسل در نسل چلتی رہی ،کسی نے محض "چودھراہٹ "کی خاطر کسی نے غیرت کے نام پر اور کسی نے انتقامی جذبے کے تحت مخالفین کو ٹھکانے لگایا ،جوابی کارروائیاں بھی دشمن داری کا ایک اہم باب ہیں، جگا ٹیکس ،قبضہ گروپ ،لڑائی مارکٹائی اور خون کا بدلہ خون کے نام پر ہونے والی قتل وغارت گری اپنی جگہ، لیکن کئی دشمنیاں محض تو تکرار اور رعب داب کے چکر میں شروع ہوئیں جو آج تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ،بڑی بڑی اہم سیاسی شخصیات نے بھی گاہے بگاہے ان دشمنیوں کو دوستی میں بدلنے کی کوشش کی لیکن بیشتر میں کامیابی ممکن نہ ہوئی صلح جوئی کے جو اکا دکا معاملات منظر عام پر آئے ان میں بھی اچانک رکاوٹ پیدا ہوگئی حتیٰ کہ سرکاری سطح پر شروع کی گئی "صلح کرواﺅ مہم "بھی کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کرسکی ،ان میں سے کئی ایک دشمنیاں ایسی بھی ہیں جن کی ابتداءپولیس سے ہوئی اور اسے پروان چڑھانے میں بھی پولیس مرکزی کردار ادا کرتی رہی ،کئی ایک پولیس کے اعلی افسران بھی دشمن داریوں کو اپنی مفاد کی خاطر ہوا دیتے رہے اور کئی ایک پولیس والے دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔"روز نا مہ پا کستا ن کی خصوصی تحقیقاتی ر پو رٹ کے مطا بق کہ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں سب سے پہلی دشمنی نادر اور داﺅد پارٹیوں کے درمیان شروع ہوئی تو دونوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ آپس میں بہت اچھے دوست تھے دونوں پارٹیوںکے درمیان کافی عرصہ تک دشمنی چلتی رہی اس وقت دونوں اطراف سے 8افراد قتل ہوچکے ہیں ۔اسکے بعد1965ءمیں ہنجروال شاہپور میں ملک اشرف اور پیر منا کے درمیان "چودھراہٹ "پر جھگڑا شروع ہوا تو یہ دشمنی "سہروں"والی دشمنی کے نام سے مشہور ہے ۔ملک اشرف کے قتل کے بعدملک افتخار اپنے گروپ کا سربراہ بنا اور اس نے کالو شاہ پوری،نیازی ،عارف، نمبر دار اور ظفری نت وغیرہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور بعدازاں ٹھوکر نیاز بیگ میں مریدوال کے قریب پیر منا وغیرہ کو "بارات"کی شکل سہرے باندھ کر قتل کیا گیا اسی وجہ سے اس دشمنی کا نام سہروں والی دشمنی پڑھ گیا۔واضح رہے کہ لاہور کی اس تاریخ ساز دشمنی میں دونوں اطراف سے 50سے 60افراد قتل ہو چکے ہیں اور30کے قریب زخمی ہوئے ۔80کی دہائی میں شیخ اصغر اور معراجدین عرف ماجھا سکھ کے درمیان دشمنی میں 25کے قریب افراد قتل ہوئے یہ واحد دشمنی ہے جس کی صلح نواز شریف حکومت نے کروائی ۔بارڈر ایریا میں بھیلا بٹ گروپ کی متعدد پارٹیوںسے دشمنیاں تھیں لیکن اس کا بڑا دشمن فوجی نامی شخص تھا ان کی لڑائی میں10کے قریب افراد قتل ہوئے جبکہ بھیلا بٹ کا بھائی ایم پی اے شوکت بٹ بھی قتل ہوا ۔باغبانپورہ کا نورا کشمیری جو پہلے روحیل اصغر کے ساتھ تھا بعدازاں ماجھا سکھ کے ساتھ مل گیا مذکورہ دشمنی ختم ہونے کے بعد نورا کشمیری کے گن مین بابر بٹ نے اسے قتل کر دیا آج کل بابر بٹ اور نورا کشمیری کے بیٹوں کی دشمنی چلی آرہی ہے ۔نورا کشمیری کے بیٹوں نے باغبانپورہ تھانے کی حوالات میں 2بھائیوں کو بھی فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا ۔اندرون شیرانوالہ گیٹ کے قوما قصائی کی جگا گجر گروپ سے دشمنی رہی جس پر قوما قصائی نے لاہور کی پہلی دشمنی میں داﺅد پارٹی کا ساتھ دیا تھا اس دوران گاما پہلوان جو نادر کی اولاد میں سے تھا اس نے 18سال بعد اپنے باپ کے قتل کا بدلہ گڈو نامی شخص کو قتل کر کے لیا بعدازاں عبدالمجید بلا عرف کاکا نے گاما پہلوان کو مارا اور اسکے بعد شاہیا پہلوان کی اپنے رشتے دار شیخ امیر الدین تاراں والا کے ساتھ دشمنی شروع ہوئی اس دشمنی کا آغاز شاہیا پہلوان کے بیٹے ججی کی طرف سے شیخ امیر الدین کی بیٹی کو مبینہ طور پر چھیڑنے سے ہوا جس کی وجہ سے شاہیا کے بیٹے ججی،سہیل اور بھولی سمیت دیگر متعدد افراد قتل ہوئے جبکہ شاہیا گروپ نے تاراں والا کے بیٹوں کو قتل کیا اس دشمنی کے دوران تقریبا 7کے قریب افراد قتل ہوئے۔باغبانپورہ کا بدمعاش اور اجراتی قاتل اچھو شیدی جس نے درجنوں افراد کو قتل کیا بعدازاں پولیس مقابلے میں مارا گیا ۔اچھا شوکر والے کی دشمنی کاکو لوہار سے تھی انہوں نے کچہری میں ایک شہادتی کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد گورنر جنرل موسی نے "غنڈہ ایکٹ" نافذ کیا اور غنڈہ ایکٹ کے دوران جگا گجر،شانی جولا ھا وغیرہ پولیس مقابلوں میں پار کر دیے گئے ۔اسلام پورہ کے باﺅ وارث کی متعدد افراد سے دشمنی تھی اس دشمنی کی بنا پر بھی متعدد افراد قتل ہوئے ،گوالمنڈی کے جنرل کونسلر چودھری مقصود کی دشمنی مقامی گجرپارٹی سے تھی جس کی بنا پر دونوں کے درمیان جھگڑا عید الفطر کے ایام میں تو تکرار سے شروع ہوا اور یہ جھگڑا دونوں خاندانوں کے 10سے زائد افراد کو من و مٹی تلے لے گیا ۔ہنجروال میں افتخار عرف استوکی دشمنی ریت اٹھانے کے تنازعہ پر مقامی رہائشی سابق ایم پی اے اشرف بھارا سے شروع ہوئی دونوں پارٹیوں کے درمیان 50سے زائد افراد قتل ہوئے جن میں بچے و خواتین شامل تھے ،اشرف بھارا کے لاڈلے دوست کالو شاہ پوریا نے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے "باراتی "کا روپ دھار کر 9کے قریب افراد کو موت کی نیند سلا دیاتھا،بعدازاں طالب علم رہنما ارشد امین چودھری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ لیہ سے ٹریکٹر ٹرالی خریدنے کے لئے لاہور آیا اور طالب علم رہنما بن گیا اس کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا ۔ارشد امین چودھری کی دشمنی دوسرے طالب علم رہنما عابد چودھری اور عاطف چودھری سے تھی ۔عابد چودھری کو ضلع کچہری کے باہر قتل کر دیا گیا جبکہ عاطف چودھری کو ریواز گارڈن میں جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ارشد امین چودھری نے پولیس حراست میں عاطف چودھری کو خود گولی ماری تھی۔ اسی دوران ارشد امین چودھری کا بھائی دیال سنگھ کالج کے باہر قتل ہو گیا جس کا مقدمہ تھانہ گوالمنڈی میں گوگی بٹ ،اشرف چودھری اور لاڑا کے خلاف درج ہوا اس دوران گوگی بٹ کے کزن خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ نے صلح کی کوشش کی اور ارشد امین کو 33لاکھ روپے سے زائد رقم بھی دی لیکن ارشد امین نے پھر بھی دل میں رنجش رکھی اور صلح کے لئے اقبال ٹاﺅن میں میاں ارشد نامی شخص کے گھر اکٹھے ہوئے جہاں سے ارشد امین چودھری اپنے ساتھی عارف چودھری اور گن مینوں کے ساتھ میاں ارشد کے گھر سے نکلا تو اشتہاریوں کی فائرنگ سے قتل ہوگیا اور دوبارہ پھر ان 4افراد کے قتل کا مقدمہ گوگی بٹ ،طیفی بٹ،ٹاپ ٹین اشتہاری حنیفا بابا اور جانی بٹ وغیرہ کے خلاف درج ہوا ۔تقریبا21سال تک ٹیپو ٹرکاں والا کا قریبی ساتھی حنیفا بابا اور وحیدیاں وغیرہ پر اکبری گیٹ کے امیرالدین سمیت 2افراد کے قتل کا مقدمہ درج ہوا لیکن عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کے والد بلا ٹرکا والا نے اپنے بیٹے کو مقدمے سے بچالیا جبکہ حنیفا بابا اور دیگر کے خلاف ¾کارروائی ہوتی رہی اسی دوران حنیفا بابا نے ٹیپو سے 2لاکھ روپے مانگے تو ٹیپو نے دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس نے طیفی بٹ سے رابطہ کیا اور ٹیپو کے خلاف ہوگیا ۔حنیفا بابا نے کچھ روز بعد اپنے ساتھیوں سے مل کر شاہ عالمی میں واقع بلا ٹرکاں والا کے اڈے میں گھس کر اسے قتل کر دیا ۔بلا ٹرکاں والا کے قتل کے بعد حنیفا اور اسکے بھائی نے ٹاپ ٹین اشتہاریوں بھولا سنیارا اور ہمایوں گجر وغیرہ کا گروپ چن لیا اس دوران متعدد بار ٹیپو کو مارنے کے لیے حملے کیے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ دشمنی بھی بڑھتی گئی جس کی وجہ سے دونوں اپنے اپنے گھروں میں قید ہوکر دشمنیاں سنبھالتے رہے اسی دوران ٹاپ ٹین اشتہاری بھولا سنیارا اور ہمایوں گجر ،ناجی بٹ،اعظم بٹ،مناظر علی شاہ،ثناءگجر،داﺅدناصر،لبھا چھوٹی ولا، قیصر بٹ،اسد پرنس وغیرہ مختلف جگہوں پر مبینہ پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اس دشمنی کے دوران بلال گنج کے میاں گڈو )مجاور(کی طاہر پرنس سے دشمنی چل رہی تھی اور تقریبا 14سال قبل عید میلاد النبی کی رات میاں گڈو پارٹی نے طاہر پرنس پر مبینہ حملہ کر دیا اس حملے کے دوران 8افراد قتل ہوئے اور 30کے قریب زخمی ہوئے تھے جبکہ طاہر پرنس بچ گیا اور بعدازاں 8افراد کے قتل کا مقدمہ بھی ٹیپو ٹرکاں والا نے طاہر پرنس سے مل کر طیفی اور گوگی بٹ وغیرہ کے خلاف درج کروایاتاہم اس مقدمہ میں طیفی بٹ وغیرہ بے گناہ ثابت ہوئے ،جس کے بعدطاہر پرنس بھی اس کے بعد پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور تقریبا 7سال قبل ٹیپو ٹرکاں والا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایوان عدل گیا تو اس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں 5افراد قتل ہوئے جبکہ ٹیپو زخمی ہوا اس کا بھی مقدمہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ ،انسپکٹر عابدباکسر،بھیلا بٹ کے بھائی شفقت بگا سمیت دیگر نامعلوم افراد کے خلا ف درج کروایا گیاجبکہ نامعلوم افراد کے بارے میں بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ بچ جانے والے ٹاپ ٹین اشتہاری خالد چٹا اور ڈیوٹی فری شاپ کا عامر بوڑا ہے تاہم عامر بوڑا گرفتار ہوگیا تھاجبکہ عابد باکسر بھی تقریبا ایک سال جیل میں رہا اوراس دشمنی کا باب چند عرصہ قبل لاہور ایئر پورٹ پر ٹیپو ٹرکاں والا کے قتل ہونے پر بند ہوگیا۔اندرون لوہاری کی بانو نامی خاتون جس کے خاندان پر درجنوں منشیات فروشی کے مقدمات درج ہیں اس کے بیٹوں کمال،پیچی،نادراور پطوکی متعدد افراد سے دشمنی ہے کمال اور پیچی کے قتل کے بعد مقدمہ ملک احسان پر درج ہوا بعدازاں وہ مقدمہ سے خارج ہوگیا۔نادر کو اس کے مخالف محبوب لمبا نے سوتر منڈی میں قتل کر دیا اندرون شہر کے باﺅبسی والا کے باپ کو امیرالدین پارٹی نے قتل کیا اور اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ جیل سے باہر آنے کے بعد3قتل کیے پھر کھادومیراثی سے جھگڑا ہوا اور کھادو مراثی کے بیٹے کو بسی والے نے قتل کردیا اور پھر دوبارہ جیل چلا گیا۔رحمان پورہ اچھرہ کے سید فرقان شاہ کی دشمنی شیخ نعیم سے معمولی بات پر شروع ہوئی دونوں پارٹیوں کے درمیان قتل و غارت کا بازار تاحال گرم ہے ،علاوہ ازیںساندہ کے منا قریشی اور کالا دائی والا کی بھی متعدد افراد سے دشمنی چل رہی ہے منا قریشی نے اپنے دوست سے دشمنی شروع ہونے پر اس کے ماں باپ اور اسے عیدالاضحی کی رات سمن آباد میں قتل کیا بعدازاں اشتہاری ہوگیا اسی طرح صفدر پیٹیاں والا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سونے کا کاروبار کرتا تھا اور سونا پکڑے جانے پر اس نے عامر وغیرہ 4افراد کو چاند رات والے دن فیصل ٹاﺅن میں قتل کیا ۔ٹیپو ٹرکاں والا کا منہ بھولا بھائی عاصم عرف چاند پہلوان قلعہ لکشمن سنگھ میں موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے قتل ہوا جبکہ کچھ عرصہ قبل دہشت کا نشان سمجھے جانے والے مبین بٹ کو کوٹ لکھپت جیل کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا ۔2002 ءمیں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عارف بھنڈر نے علاقے میں مسلم لیگ (ق) کی طرف سے جنرل کونسلر کامیاب ہونے کے بعد مقتولہ میمونہ کے بھائیوں سمیت خاندان کے دیگر افراد پر چوری ڈکیتی سمیت قبضے اور فائرنگ کے کئی مقدمات درج کرادیئے جسے مقتولہ کے خاندان والوں نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان مقدمات میں اشتہاری رہے تاہم 2005 ءمیں پشے خان کو سزائے موت کے بعد بادامی باغ کے پٹھانوں اور سمیت کئی ایسے افراد نے عارف بھنڈر کا ساتھ دیتے ہوئے سال 2006 ءہونے والے دوسرے بلدیاتی انتخابات میں دوبارہ عارف بھنڈر ناظم کی سیٹ پر کھڑا ہوا تو اس کے مقابلے میں ملک نواز کھوکھر نے جیل میں رہ کر اپنے کاغذات جمع کراتے ہوئے مدمقابل الیکشن لڑتے ہوئے کامیابی حاصل کی جبکہ ملک نواز کے ساتھ نائب ناظم ملک زاہد کھوکھر بھی بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تاہم اسی سال عارف بھنڈر کو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نامزد کردیا گیا جس پر ملک زاہد عرف زاہدو نے اپنے ساتھیوں سے مل کر وارث روڈ پر عارف بھنڈر کو اسے کے بھائی کاشف بھنڈر جو کہ فیروزوالہ میں بطور ٹی ایم او تھے بھانجے اور ساتھیوں سمیت 7 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا اور اس موقع پر ایک زخمی پولیس کانسٹیبل کی فائرنگ سے ملک زاہد عرف زاہدو بھی موقع پر مارا گیاتھا۔مبین بٹ کے ساتھی 2بھائیوں زیشان عرف شانی اور علی عمران عرف شانی بٹ کو 28مئی 2011کو ایڈشنل سیشن جج احمد علی کی عدالت میں 8بج کر 5منٹ پرقتل کر دیا گیا جبکہ 8مئی کو شادباغ میں ملک ندیم نامی شخص قتل ہوا اس کا مقدمہ اس کی بیوری رخسانہ ندیم نے مانی بٹ اور شانی بٹ کے خلاف مقدمہ نمبر418/2011 درج کروایا ۔دونوں عبوری ضمانتوں پر تھے اور تاریخ پر آئے ہوئے تھے اب تک ندیم بٹ اور مبین بٹ گروپ میں تقریبا9افراد قتل ہو چکے ہیں ۔ بھنڈر گروپ اور ملک زاہدو کی جانب سے درینہ دشمنی کے نتیجہ میںایک بار پھر4جون 2011کو بادامی باغ پھاٹک نمبر 5 کے قریب پیش آیا جب محکمہ جنگلات کے ڈائریکٹر نور محمد کی بیوی 38 سالہ میمونہ جبین عرف مونا اپنے شوہر کی طرف سے ملی سرکاری گاڑی پوٹوہار نمبری آئی ڈی ٹی 4681 پر اپنے سیاسی حلقے یو نین کونسل 113 سے اپنے گھر واقع راوی روڈمحکمہ جنگلات کی کالونی میں جانے کیلئے ابھی بادامی باغ کے پھاٹک نمبر 5 پر ہی پہنچی تھی کہ بھنڈر گروپ کے 15افراد نے 2موٹرسائیکلوں اور کاروں پر سوار ہو کرانکا پیچھا کرتے ہوئے میمونہ جبیں ،اسکے 40سالہ گن مین سمیت ڈرائیور محمد یعقوب اور ایک راہگیر اویس جو کہ ایک روز بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا تھا کو قتل کردیا تھاجبکہ فائرنگ کی زد میں آکر 4افراد شاہد،کبیر اور یحان نامی نوجوان زخمی ہوئے تھے لیکن ان دشمنیوں کی بناءپر تاحال جنگ وجدل جاری ہے آئے روز کسی نہ کسی دشمن دار یا اس کے ساتھی کے قتل کی اندوہناک خبر آجاتی ہے بعض اوقات تو راہگیر بھی اس دشمنی کی نذر ہو کر جرم بے گناہی کی سزا پاتے ہیں ۔قتل و غارت گری کے باوجو د پولیس کی دانستہ یا نا دانستہ چشم پوشی اس دشمن داری پر جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے ،ایک دور میں نقص امن عامہ کے تحت دشمن داروں کو غیر مسلحہ کرنے اور گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کی مہم شروع ہوئی تھی لیکن اچانک بند کر دیے جانے کی وجہ سے یہ دشمنیاں ہر روز ضرب کھا رہی ہیں جو پولیس والے ان دشمنیوں کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی سرکاری اختیارات اور تعلقات استعمال کرتے ہیں ان کی بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ،ایک بھی دشمنی ایسی نہیں ہے جو پولیس سے مخفی ہو کم ازکم مقامی تھانے والے اس سے ضرور باخبر ہیں اگر پولیس چاہے تو دشمنیوں کا باب بند ہوسکتا ہے لیکن جہاں مفادات عزیز ہوں وہاں آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔