سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (ا نیسواں حصہ)

سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (ا نیسواں حصہ)
سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (ا نیسواں حصہ)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 خان صاحب کرسی لادیں ذرا،  بھائی صاحب وہ سامنے کمرہ ہے آپ اس میں آرام کریں، گاڑی کے ڈینٹر بولے۔ راقم  ایک کمرے میں داخل ہوا جس میں ایک بڑا  بستر موجود تھا۔ یہ ایک  اجتماعی بستر تھا۔ چھ سات آدمی اس بیڈ پر اکٹھے سوتے ہوں گے۔ بیڈ پر ایک پلاسٹک کی ٹپائی تھی اور یہ بستر خان صاحب اور  انکے ساتھیوں نے مل جل کر خود بنایا تھا۔ میں بستر پر نیم دراز  ہوا  تو بالکل سامنے کچن موجود تھا۔ کچن تقریباً وہاں سے شروع ہوتا تھا جہاں سے بستر کی حدیں ختم ہوتی تھیں۔

یہی بستر ایک ڈائننگ میز کا کام بھی کرتا تھا جس پر درجن بھر  افراد  بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے۔میں نے اپنے دائیں طرف نظر دوڑائی تو سپیئر  پارٹس کا گودام بھی اسی بیڈ روم میں موجود تھا۔ بے شمار  کپڑے لٹک رہے تھے۔ تقریباً پندرہ  مربع میٹر کے اس کمرے کو  امپرووائیز کیا گیا تھا۔ بیڈ  روم،  ڈرائنگ روم، کچن، سٹور  اور  ڈائیننگ روم اس  کے اندر موجود تھے۔ میرا  اندازہ ہے کہ خان صاحب اور  انکے ساتھی بیمار نہیں ہوتے،  یا بہت کم ہوتے ہیں۔

اگر میں اس کا موازنہ اپنے ایک مغربی ملک سے کروں جہاں میں نے 20 سال گزارے ہیں اور جہاں کی صفائی ستھرائی کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی تو اس بیڈ روم میں رہنے والوں کو  صفائی کے بنیادی  اصولوں کی پیروی اور پابندی نہ کرنے کی پاداش میں کب کا  بیمار ہوکر فوت ہوجانا چاہیے تھا۔ میں نے خود کو قائل کیا کہ انسان میں چیزوں کو اپنانے  کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر خان صاحب اور  انکے ساتھیوں کو انتہائی صاف ستھرے ماحول میں رکھا جائے تو وہ  صفائی ستھرائی کا معیار شاید قائم نہ رکھ سکیں لیکن وہ اس ماحول کو جسمانی طور پر  ایڈاپٹ( اختیار )  کرلیں گے۔اس کے برعکس ایک لگژری  لائف سٹائل سے اگر کسی شخص کو اس کمرے میں لا کر رکھا جائے تو وہ  بیمار پڑ جائے گا۔ اسکی موت بھی واقع ہوسکتی ہے، تو کیا لگژری لائف سٹائل  اور آسائش و  آرام  انسان کو کمزور  اور  بزدل بنادیتا ہے؟
 آج کل احتجاجی سیاست زور پکڑ رہی ہے۔لاوڈ سپیکر پر اعلان ہورہا ہے، فلاں دن پہیہ جام ہڑتال ہونے جارہی ہے۔جلسے جلوس زوروں پر ہیں، عوام یہ یقین کرنے لگی ہے کہ ریاست یا یوں کہیے سیاسی اشرافیہ اپنے اور ا پنے  بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنے سے بڑوں سے مل کر غریب طبقے اور انکے بچوں کے مفادات کا  استحصال کررہا ہے ۔
 ہمارے خیال میں صنعتی ترقی نے دنیا کو اس قدر بدل دیا ہے جس کی طرف عوام کی توجہ دلانے میں کوئی مظائقہ نہیں۔ کارپوریٹ ورلڈ صنعتی ترقی کا وہ دیو ہے جو آپ کے اردگرد ہر طرف موجود ہے۔پچاس برس قبل ایسا کچھ نہیں تھا۔صنعتی انقلاب کے اثرات کو آپ صرف ایک زاویہ سے دیکھ رہے ہوں گے، آپ اپنے گھر میں کیا کیا اشیا  مارکیٹ یا  بازار سے خرید کر لاتے ہیں اور کیا کیا اشیا آپ  کے گھر کے عقبی حصے میں  پیدا ہوتی ہیں؟ ہم  اپنی  تقریر کو فیس بک پر ڈال دیتے ہیں اور  ہمارے خیال میں وہ پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے؟ اگر آپ کچھ آئی۔ٹی جاننے والوں کو ٹاسک دیں کہ آپ اپنی تقریر دنیا کے صرف ایک ملک کے سارے یوزرز تک  چند گھنٹوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو متعلقہ آئی ٹی جاننے  والے فیس بک سے پوچھ کر آپکو بتائیں گے کہ فیس بک آپ سے ہزاروں ڈالر کا  بل مانگے گی جہاں بڑی تعداد میں پوسٹیں اور مواد خود ساختہ  اورپراپیگنڈا بھی ہوتاہے۔

فیس بک پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس بھی کارپوریٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فیس بک پر آپ کی پوری کی پوری موجودگی اور  ہسٹری کا ریکارڈ ہے۔آرٹی فیشل انٹلی جنس آپ کے رحجان کے مطابق آپ کو مواد  تجویز کرتی ہے۔ گھر میں آپ کا  بچہ، آ پ کا  بھائی، آپکی بیٹی مسلسل موبائل دیکھے جارہے ہیں۔ تو ان ٹیک کمپنیز نے ہمیں پالتو پیٹس کی طرح نہیں رکھا ہوا کیا؟مانا کہ بین الاقوامی اور  داخلی سیاست اور  استحصالی قوتوں کا قصور بہت ہے لیکن ہر دور کے اپنے چیلنجز ہیں۔ اب کی بار کا چیلنج علاقائی  اور گروہی ہے یا اسے عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ عوام کو معلوم تو ہونا چاہیے کہ ان کا دشمن سامنے کھڑا سپاہی نہیں، وہ سپاہی خود  اس گلوبلائزیشن  اور صنعتی انقلاب کے ہاتھوں مظلوم ہے۔ اس سپاہی کا آفیسر بھی آپ کا دشمن نہیں ہے۔ 
 ہم صورت حال کو ایک دوسر ی طرف سےدیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق وطن عزیز کی چھتیس فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے اور  چونسٹھ  فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔  وطن عزیز کی کل چودہ  فیصد آبادی میٹرک سے اوپرپڑھی لکھی ہے۔ کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ مجموعی آبادی میں گریجوایشن تک کی تعلیم کی کیا شرح ہے؟ آئیے اندازہ لگاتے ہیںتو مان لیتے ہیں کہ وطن عزیز کی دس فیصد آبادی گریجوایشن یا  اس سے زیادہ تک کی تعلیم سے آراستہ ہے۔ آپ کے خیال میں وطن عزیز کی پوری آبادی کا کتنا  فیصد الیکشن،  جمہوریت، سیاست، ملکی نظام کے بارے میں اچھی معلومات رکھتی ہے  اور  ووٹ ڈالتے وقت درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ دس فیصد،  بیس فیصد یا زیادہ؟  ایسے میں کیا بے لگام جمہوریت پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟
ہماری دعا ہے کہ احتجاجی سیاست پر تشدد  راستے کا  انتخاب نہ کرے، سوشل میڈیا  بزنس کمپنیز ہیں، بزنس کی  ترجحیات پروموشن  اور ٹرن آؤٹ ہے۔ ان  بزنس کمپنیز کی پالیسی چین میں کچھ اور ہے،  روس میں اور ہے،  مڈل  ایسٹ میں کچھ اور ہے۔ نیشنل سکیورٹی کا نام سناہوا ہے ہم نے، آمریکہ کی نیشنل سکیورٹی اور  مفاد کے ساتھ ان  کمپنیز کا حلف نامہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات اور اکثر اوقات  لاکھوں کے مجمعے کی خبرہمارے ضلع  اور صوبے سے باہر نہیں نکل پاتی۔ اسے سوشل میڈیا مینجمنٹ کہہ سکتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں ہم نے اپنی احتجاجی تحریک کو پرتشدد  اور  جلاو گھیراو تحریک بنانے کا  فیصلہ کرلیا ہے؟ دحشت گردی کا الگ بجٹ ہوتا ہے۔ اور  امریکہ ڈالر بھیجتا ہے۔ ڈرون بھیجتا ہے۔ وار  فئیر کی نوعیت  بدل گئی ہے۔ آپ کے گھر میں جو ہتھیار ہے اسکی رینج آپ کے پڑوسی تک تو ہے لیکن  مارڈن  وارفئیر میں وہ کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ اپنے گھر کو  اور گرد  و  نواح کو سٹون ایج میں تو نہیں لے جانا چاہتے ہم؟ 
  اللہ ہمارا  حامی  اور  ناصر  ہو۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -