آٹھ لاشیں اور رُوٹھی ہوئی خوشخبریاں

شیدے ریڑھی والے نے آج کل ایک عجیب تکیہ کلام اپنا رکھا ہے۔ جب بھی اس کے پاس جانا ہو،فٹ یہ سوال پوچھتا ہے، بابو جی کوئی خوشخبری ہے؟ میں اپنے ذہن کو ٹٹولتا ہی رہتا ہوں کہ کسی طرح خوشخبری نکال کے اس کے سامنے رکھ دوں۔ کل میں جب اس کے پاس سبزی لینے گیا تو مجھے معلوم تھا وہ یہی سوال کرے گا، سوچ رکھا تھا کوئی الٹی سیدھی بات کہہ کر خوشخبری سنا دوں گا، لیکن وہ تو بھرا بیٹھا تھا۔ کہنے لگا بابو جی ایران میں آٹھ پاکستانیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ آج تو دل بہت دکھی ہے۔ اس ملک میں خوشخبری تو کوئی رہ ہی نہیں گئی۔ میں نے کہا شیدے ایسی بات نہیں۔ دیکھو ہم نے پنجاب کلچرل ڈے منایا ہے۔ پگڑیاں باندھی ہیں۔ ڈانس کئے ہیں، خاصا جشن ہر طرف نظر آیا ہے، خوشی تو ملی ہے ناں۔ وہ کچھ عجیب نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ جیسے یہ جاننے کی کوشش کررہا ہو کہ میں کہیں طنز تو نہیں کررہا۔ حالانکہ میں تو تازہ تازہ ایک کلچرل ڈے کی تقریب میں شرکت کرکے لوٹا تھا، جس میں خوب ہلا گلہ کیا گیا تھا۔ افسروں نے بھی پنجابی پگیں پہن کر شرکت کی تھی۔ جب اس نے دیکھا میں بے حسی کی حد تک سنجیدہ ہوں تو اس نے پوچھا بابو جی پھر ایران میں قتل ہونے والے سب پنجابی تھے ناں، مجھے یوں لگا جیسے اس نے میری چوری پکڑلی ہو۔ میں نے کہا پنجاب سے تو تھے لیکن وہاں تو پاکستانی تھے ناں …… لیکن انہیں تو پنجاب کا شناختی پتہ دیکھ کر قتل کیا گیا ہے۔ میں نے تو یہی سنا ہے۔ شیدا باز آنے والا نہیں تھا۔ میں روزانہ اسے جھوٹی سچی خوشخبری سنا کر مطمئن کر دیتا تھا، مگر آج وہ اندر سے دکھی تھا۔ اتنے میں وہاں پنجاب کلچرل ڈے کا ایک جلوس آ گیا۔ اس میں گھوڑے، سجی ہوئی بگھیاں، رقص کرتے کرتوں اور لاچوں میں ملبوس نوجوان اور مختلف تعلیمی اداروں کے بچے شامل تھے، میں نے سوچا شیدے کا دھیان اب بٹ جائے گا اور خوشی کی باتیں کرنے لگے گا مگر وہ ظالم تو پوری طرح لاٹھی چارج کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس نے مجھے زور سے متوجہ کرتے ہوئے پوچھا بابو جی سنا ہے جو ایران میں قتل ہوئے، ان میں دو نوجوانوں کی عید کے بعد شادی ہونے والی تھی۔ ان کی ماؤں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ پہلے پنجایبوں کی لاشیں بلوچستان سے آتی تھیں اب ایران سے آئیں گے۔ یہ تو بڑا ظلم ہے ناں۔ سچی بات ہے اب میرے لئے اس کے پاس ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل مجھے کچوکے لگا رہا تھا، اندر سے جھنجھوڑ رہا تھا۔ میں نے سب کچھ سلا رکھا تھا مگر وہ مجھے اس طرح جگا رہا تھا جیسے کوئی گہری نیند سوئے ہوئے تو گرم پانی ڈال کر جگاتا ہے۔ میں نے بہانا کیا ذرا ایک ضروری کام سے جانا ہے، اس لئے سبزی دیدو پھر بات کروں گا۔ اس نے مایوس نگاہوں سے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، بابو جی آپ خوشخبریاں تو فٹا فٹ سناتے ہیں مگر جب کوئی غم کی خبر ہو تو اسے سننے کا آپ میں حوصلہ نہیں ہوتا۔
میں واپس گھر آیا تو بیٹی نے ٹی وی لگا رکھا تھا۔ جس پر یہ خبر چل رہی تھی کہ پاکستان نے ایرانی حکومت سے شدید احتجاج کیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایرانی حکومت پاکستانیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی۔ پھر وزیراعظم شہبازشریف کا یہ بیان سنا کہ افغانستان کی حکومت دہشت گردوں کو روکے، گویا اب ایران اور افغانستان دونوں ہمارے لئے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ہم نے یہ مطالبہ تو کر دیا ہے کہ ایران 8پاکستانیوں کے قاتلوں کو گرفتارکرکے سزا دے، لیکن بات اس سے آگے کی ہے۔ پاکستانیوں کو ایران میں قتل ضرور کیا گیا ہے لیکن قتل کرنے کا پیٹرن وہی ہے جو بلوچستان میں سامنے آتا رہا ہے۔ ایرانیوں کی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان پاکستانیوں سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ اس دہشت گردی کی واردات سے تو یہ واضح ہو گیا ہے کالعدم بلوچ تنظیمیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں وہ ایران میں اپنی پناہ گاہیں بنا چکی ہیں۔ مطالبہ کرنا ہے تو یہ کیا جائے کہ ایران بلوچستان کے دہشت گردوں کو ایران سے نکالے اور ان کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے، باقی ہماری سیکیورٹی فورسز ان سے خود نمٹ لیں گی۔ میں سوچ رہا ہوں اگر امریکہ کے آٹھ شہری اسی طرح ایران میں قتل کئے جاتے تو کیا امریکہ ویسا ہی ردعمل دیتا جیسا ہم نے دیا ہے؟ وہ ایسا نہ کرتا بلکہ اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا جہاں یہ واقعہ ہوا ہے۔ یہ خونِ پاکستان کی ارزانی ہے کہ ہم ہلکے پھلکے احتجاج سے کام چلا لیتے ہیں۔ پنجاب اور پنجابیوں کا دل بہت بڑا ہے۔ وہ لاشیں وصول کرنے کے باوجود لسانی بنیادوں پر نہیں سوچتے، وہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ کسی نے بہت خوبصورت بات کی کہ پنجاب میں سب محفوظ ہیں وہ کسی بھی صوبے، رنگ، یا نسل سے ہوں۔ مثالی بھائی چارے کی فضا زندگی گزار رہے ہیں، یہ پنجابی ہیں کہ جنہیں شناختی کارڈ دیکھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اہلِ پنجاب بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی یکجہتی کے خلاف سازش ہے۔ دشمنوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ پنجاب اور اہلِ پنجاب کے دلوں میں پاکستان کی دیگر قومیتوں کے خلاف نفرت پیدا کی جائے، یہ نفرت پیدا ہوگی تو پاکستان کمزور ہوگا، لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکتی، پنجاب بڑے بھائی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایسی دہشت گردی کے واقعات پر روائتی بیانات کا مرہم چھڑک کر گزارا کیا جائے۔ افغانستان اور ایران کو صرف یہ کہنا ہی کافی ہی کافی نہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکیں اس کے لئے بھرپور سفارتی دباؤ ڈالنے اور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے تمام صورت حال بتا کر اعتماد میں لینے کا وقت آ چکا ہے۔ ہم ترقی کے جتنے مرضی دعوے کرتے رہیں جب تک دہشت گردی کے عفریت پر قابو نہیں پاتے، اس وقت تک ترقی کا کوئی خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ایک طرف ہمیں اپنے تینوں ہمسایہ ممالک بھارت، ایران اور افغانستان کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ ان کی طرف سے دراندازی ناقابلِ برداشت ہے اور دوسری طرف ملک کے اندر واضح حکمت عملی کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع اور جہاں ضرورت ہو اپنے ناراض گروپوں سے سیاسی رابطوں کے بعد انہیں قومی دھارے میں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شیدھے ریڑھی والے جیسے عوام جو سوالات پوچھ رہے ہیں ان کا جواب عملی اقدامات کے ذریعے دینا چاہیے۔ اس کے لئے قومی حکمت عملی بنانے کی طرف جانا ہوگا چاہے اس کے لئے انا اور ذاتی مفادات کی بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔