جماعت اسلامی کا راستہ آسان یا مشکل؟
جماعت اسلامی کا نصب العین اقامتِ دین ہے یعنی سیاست میں دینی اقدار کو فروغ دینا اور فساق و فجار سے قیادت کی باگیں چھین کر صالحین کے ہاتھوں میں دینا۔ جماعت کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت کے قیام سے قبل مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب علمی جمود بتایا تھا چنانچہ انہوں نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر بہت اچھی کتابیں لکھیں اور آہستہ آہستہ اپنے دائیں بائیں دانشوروں کی ایک ٹیم بھی تیار کر لی۔ المیہ یہ ہوا کہ خود مولانا اور ان کے اہلِ قلم ساتھیوں نے جو کچھ لکھا، وہ زیادہ تر نظریاتی انداز کا تھا۔ یعنی قرآن اور حدیث کی تعلیمات کی تشریح کر دی۔ لیکن گرد و پیش کی زندگی جن مسائل سے دو چار تھی، اس طرف توجہ نہ دی۔ مثلاً ایک بڑا مسئلہ جاگیرداری کا تھا۔ مولانا نے مسئلہ ملکیت زمین نامی ایک بڑا مختصر سا کتابچہ لکھا جس میں پاکستانی جاگیرداری نظام کو زیرِ بحث ہی نہ لایا گیا۔چنانچہ جاگیردار پاکستانی سیاست کو گدلا کرتے رہے لیکن جماعت کے کسی دانشور نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ سرمایہ داری روز بروز بڑھتی اور پاکستانی معاشرے کو اخلاقی اور معاشی حوالے سے کئی نئے مسائل سے دوچار کرتی رہی لیکن جماعت اسلامی اس کا بھی کوئی حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش نہ کر سکی۔ خاص طور سے صنعتکاری کے باعث مزدوروں کا جو بھاری بھرکم طبقہ وجود میں آیا، اس کے مسائل کی ماہیت اور حل پر بھی کوئی بحث نہ کی۔ سوشلزم کا نعرہ لگا تو بجائے اس کے کہ دیکھا جاتا مزدور کا استحصال ہو رہا ہے تو اس کی کیا کیا شکلیں ہیں ماہنامہ ”چراغ راہ“ کا سوشلزم نمبر چھاپ دیا۔ حالانکہ چھپنا تو مزدور نمبر چاہئے تھا، جو وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی کارل مارکس نے انقلاب کی کیا راہ دکھائی تھی یا جہاں جہاں سو شلسٹ نظام قائم ہوا، وہاں کیا خون خرابہ ہوا اس سے پاکستانی قاری کو کیا غرض تھی۔ اسے تو خالص اپنے مقامی مسائل کا تجزیہ اور حل درکار تھا۔ لیکن جماعت کے دانشوروں نے بڑا آسان سا راستہ یہ اختیار کیا کہ وہ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ کی صرف تعلیمات پیش کرتے رہے۔ مثلاً یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے مگر ہمارا جو کاروباری نظام ہے، اس میں مزدوری کے تعین اور اس کی ادائیگی کی صورتیں کیا کیا ہیں، اس کو چھیڑنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کوئی دانشور (دائیں بازو کا ہو یا بائیں بازو کا) کبھی کسی جاگیر پر نہ گیا کہ جا کر دیکھے تو سہی کہ جاگیر دار اپنے ورکروں سے مزدوری کی کیا شرائط طے کرتے ہیں، جو طے کرتے ہیں وہ ادا بھی کرتے ہیں یا نہیں۔
ہمارے ریاستی نظام کا ایک ستون عدلیہ ہے کیا جماعت اسلامی نے اپنے رسائل ایشیا، آئین، ترجمان القرآن، چراغ راہ وغیرہ میں کبھی ایک صفحہ بھی سول ججی سے لے کر سپریم کورٹ تک کے نظام پر کبھی لکھا کہ آزادی کے بعد ہمارے عوام حصولِ انصاف کے لئے کتنے عذاب سے گزر رہے ہیں۔
جس افسر شاہی کو جماعت اسلامی اپنی قراردادوں اور بیانات میں روز کوستی ہے، کیا کبھی اس ادارے کی طرف بھی توجہ دی، کبھی ادارہ معارف اسلامی یا انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کی طرف سے کبھی ایک کتابچہ بھی شائع ہوا جس میں اس طبقے کی مراعات اور منہ زوریوں کو موضوع بنایا گیا ہو۔ ماضی کے چراغ راہ کا نظریہ پاکستان نمبر ہو یا ترجمان القرآن کے حالیہ شمارے ان میں نظریہ پاکستان کی بڑی تبلیغ کی جاتی ہے۔ سیکولرسٹوں اور جدیدیت پسندوں کو گالیوں سے بہت نوازا جاتا ہے لیکن نہ مسائل کی ماہیت اور نہ اس کے تجزیہ پر جماعت کے کسی دانشور کا قلم حرکت میں آتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ ساری عمر ظالمانہ نظام کو بدلنے، اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دعوت تو بہت دیتے رہے مگر سوائے سطحی بیانات دینے اور سیکولرسٹوں اور سوشلسٹوں کو دھمکیاں دینے کے کچھ نہ کر سکے۔ ان کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی یہی روش اختیار کئے رکھی۔ میاں طفیل محمد ہوں یا قاضی حسین احمد، سید منور حسن ہوں یا موجودہ امیر محترم سراج الحق ان کا تو سرے سے قلم سے رشتہ ہی نہ تھا، انہوں نے کیا سوچنا تھا اور کیا لکھنا تھا۔ جناب سراج الحق کا میدانِ سیاست میں طریقہ کار ہم سب کے سامنے ہے ان کا بلا ناغہ ایک بیان روزانہ اخبارات کی زینت بنتا ہے جس میں موصوف مقابل کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں کہ یہ لوگ چور ہیں، ڈاکو ہیں، لٹیرے ہیں اور عوام دشمن ہیں۔ایسے عمومی سے انداز کے بیانات دینا دراصل آسان راستہ ہے۔یہ بیانات تو ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے، کے مصداق ہوتے ہیں۔یوں حق گوئی کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ یہ نہیں کہ انہیں پتہ نہیں، انہیں اچھی طرح ادراک حاصل ہے کہ نظام کو چھیڑنے والوں کے لئے یہاں ہر وقت پھانسیوں کے پھندے تیار ہوتے ہیں اسی طرح کا سلوک اقوامِ سابقہ انبیائے علیہم السلام ایسے داعیانِ حق کے ساتھ روا رکھتی تھیں خود بانیء جماعت بتکرار کہتے رہے کہ وہ حق ہی کیا جس کے سامنے باطل کی پیشانی پر بل نہ آ جائیں۔