علی جان خان کی رخصتی۔عظمت محمود اور نادیہ ثاقب کا امتحان
پنجاب کے محکمہ صحت کی تاریخ میں علی جان خان نے بطور سیکرٹری طویل ترین اور تاریخ ساز ایوننگ کھیلی اور محکمہ صحت میں بولڈ سٹیپ لیتے ہوئے بڑے بڑے میگا پروجیکٹس مکمل کے تقریبا 70 سالوں میں پہلی مرتبہ ہسپتالوں کی 60 ارب روپے سے زائد سرمایہ سے ریمپنگ کی ادویات کو ذخیرہ کرنے کے لیے ویئر ہاؤسز قائم کیے مختصر ترین حکومت کے عرصہ میں ڈھائی سو سے زائد فیلڈ ہسپتال قائم کیے غریب مریضوں کے گھروں پر ادویات پہنچانے کا عملی طور پر انتظام کیا پنجاب میں پہلی مرتبہ فار میسی کا باقاعدہ طور پر ڈائریکٹریٹ قائم کیا اور فارماسسٹ کی حیثیت کو ہسپتالوں میں تسلیم کروایا یہ علی جان ہی تھے جنہوں نے ہسپتالوں کے اندر پہلی مرتبہ اسسٹنٹ اسوسییٹ اور پروفیسرز کو میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے عہدے دیے اور ٹیچنگ کیڈر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے جنرل گیڈر کے لوگوں کی جگہ کام لیا محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے ساتھ ساتھ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ ایکول طور پر کام کیا دونوں محکموں کی سربراہی کرتے ہوئے بہت سارے سنگ میل نہ صرف مکمل کیے بلکہ عبور کر دیے یہ علی جان ہی تھے جنہوں نے ایک ہی وقت میں ہر محاذ پر جنگ لڑتے ہوئے محکمہ صحت کی بہتری کے لیے عملی کام کیا اہسپتالوں کے اندر لیبر یونینز کے ساتھ پنجا ازمائی کی اور ہسپتالوں میں ان کی جدراہٹ کا خاتمہ کیا اسی طرح انہوں نے دونوں محکمہ صحت کے اندر ایک بہترین ہیلتھ مونیٹرنگ اور نظم و نسق چلانے والی بہتر ین ٹیم تشکیل دی ان کے قریبی ساتھیوں کے بقول انہوں نے 24 میں سے 20 سے 22 گھنٹے کام کیا مگر ایسے وقت میں ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جب ہیلتھ ترقی کر رہا تھا دوسری طرف علی جان خان کا دم بھرنے والے میڈیکل یونیورسٹیوں کے بعض وائس چانسلر مختلف ہسپتالوں میں لگائے جانے والے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ میڈیکل کالجز کے پرنسپلز اور اور ان کے ما تحت انتظامی امور جلانے والے مختلف افسروں نے کے اندر ان کے تبادلے کے پہلے ہی گھنٹے کے اندر اپنی ہمدردیاں تبدیل کر لیں اور نئے سیکرٹریز کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے نئے سیکرٹریز عظمت محمود اور نازیہ ثاقب کے قریبی ذرائع کے مطابق سیکرٹری علی جان کے تباد لے کے پہلے گھنٹے کے اندر 20 سے زائد پرنسپلز میڈیکل سپریٹینڈنٹ اور دو وی سیز نے ان سے ٹیلی فون کو رابطے کیے انہیں مبارکبادیں دیں اور اپنی ہمدردیوں کا اظہار کیا اور علی جان کے بارے میں کیڑے نکالے ایک بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ سرکاری ملازمت میں . تبادلہ نوکری کا حصہ ہے اور جو لوگ علی جان کے تبادلے سے خوش ہو رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ علی جان بہت جلد ایک بڑے عہدے پر نظر ائیں گے بابا جی کہتے ہیں کہ جو کام کرے گا اس کی شکایت بھی ہوگی اور اس کے دشمن بھی سامنے ائیں گے اس کی مخالفت بھی ہوگی الزامات بھی عائد ہوں گے مگر جو بندہ کام نہیں کرے گا انہیں ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو علی جان نے تو بہت کام کیا علی جان خان کی ٹیم کے بہترین کھلاڑی راجہ منصور تھے جنہوں نے ان کے ساتھ دن رات کام کیا عاسم الطاف تھے راشد صاحب تھے محمد سہیل ڈی جی ٹرک کنٹرول کا نام نہ لینا زیادتی ہوگی اور سب سے بڑھ کر ازر جمال سلیمی چیف ڈائرک کنٹرولر کنٹرولر پنجاب نے بھی ان کی سپریزن میں بہت کام کیا بابر بڑا ایا بھی ان کی ٹیم کا اہم ستون ہے ڈپٹی سیکرٹری ولید کا نام نہ لکھنا بھی زیادتی کے مترادف ہے انہوں نے بھی فصل تعلق سے چن چن کر پیراسائٹ کو نشانے لگائے ایڈیشن سیکرٹری زاہدہ کا نام نا لینا گناہ ہے اب باری اتی ہے ان کی جگہ سپیشلائزڈ میں معروف بیوروکریٹ عظمت محمود کو سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ لگایا گیا ہے جبکہ پرائمری ہیلتھ کی سیکرٹری نازیہ ثاقب کو لگایا گیا ہے علی جان نے دونوں محکموں کی کمان اکیلے سنبھالی اور لا تعداد کارنامے سرانجام دیے اب یہ بیوروکریٹ بھی اپنی مثال اپ ہیں اور منجھے ہوئے دونوں بیوروکریٹ ہیں ان کا ماضی بے داغ ہے جس سپیڈ سے علی جان نے مریم نواز کی سربراہی میں اور اس سے پہلے محسن نقوی کی سربراہی میں اور اس سے پہلے شہباز شریف کی سربراہی میں جس سپیڈ سے کام کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں بیوروکریٹ جن کے پاس ایک ایک محکمہ ہے یہ علی جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی سپیڈ بناتے ہیں یا اپنا رخ متعین کرتے ہیں اس کا جواب ائندہ چند روز میں مل جائے گا اب دونوں محکموں میں نئے دونوں سیکٹریز کو ایسے پیراسائٹ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جن کی تعداد 300 سے زائد ہے اور انہیں علی جان نے ہسپتالوں سے نکال کر یہاں قید کیا ہوا تھا نئے سیکٹریز علی جان کے اقدامات پر قائم رہتے ہیں یا ان کو ان کے ہسپتالوں میں ان کے ماضی کی جگہ پر واپس بھیجتے ہیں یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب ائندہ چند روز میں ملے گا اگر میں بات کروں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کی سیکرٹری نازیہ ثاقب کا تو انہوں نے اتے ہی ہسپتالوں کے دورے شروع کر دیے ہیں اج انہوں نے داتا دربار ہسپتال کا دورہ کیا اور نئی ہدایات جاری کی نئے سیکرٹریز کو سب سے بڑا چیلنج ہے ہسپتالوں کی ریمپنگ کا درمیان میں ہی لٹکے رہنا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال 100 فیصد نتائج نہیں دے رہے ہسپتالوں میں میڈیکل سپریٹینڈنٹ کی جگہ پر نہ تجربہ کا ہر باز لوگوں کو لگایا گیا ہے اب دیکھنا ہے کہ وہ برقرار رہتے ہیں یا علی جان کی طرح انہیں بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے یہ باتیں اپنی جگہ مگر ایک بات جس کا ا موجودہ اور نئے سیکرٹریز کو اگاہ کرنا ہے کہ ہیلتھ میں ایک پرانا مافیا موجود ہے جو ہر انے والے سیکرٹری کے گرد جمع ہو جاتا ہے اور اپنے چنگل سے انہیں باہر نہیں نکلنے دیتا اور پھر ان کا بیڑا غرق کر کے ہی رہتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی جوڑی اس مافیا کے چنگل میں پھنس جاتی ہے یا اپنی سوچ اور وزیراعلی کی سوچ کے مطابق آگے بڑھتی ہے۔