’’ جونہی دم والا پانی خاتون پر چھڑکا گیا اس کے بدن سے یوں آواز آئی جیسے ۔۔۔‘‘ انسانی جسم سے جنات نکالنے کا انتہائی حیران کن طریقہ جس کے لئے کسی عامل کی ضرورت پیش نہیں آتی
میں روزانہ اخباروں میں ایسے واقعات سنتا ہوں کہ جب کسی عامل نے کسی عورت کا جنّ نکالنے کے لئے اس پر بے تحاشا تشدد کیا،بچے بچیوں کو جنسی اور جسمانی ایذا پہنچائی ۔جاہل لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عامل وہی ہے جو زور آزمائی کرکے جنات اتار دے ۔حالانکہ اللہ پر یقین رکھنے والے متقی اور پرہز گار لوگ جب کسی ایسے سحر زدہ کو حکم دیتے ہیں تو اسکا جنّ خود بخود اتر جاتا ہے۔
پچھلے سال کا واقعہ ہے میں ایک بزرگ باباجی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ا نکے پاس ایک خاتون تشریف لائی ۔ اس پر جنّ کا غلبہ تھا۔ وہ بھاری آواز میں چیخ و پکار کر رہی تھی۔ بابا جی نے اسے دروازے کے پاس بٹھایا اور پانی پر دم کرکے دیا اور کہا’’ اس پر چھڑک دو ‘‘۔
میں نے یہ منظر دیکھا کہ جونہی دم والا پانی خاتون پر چھڑکا گیا اس کے پورے بدن سے یوں آواز آئی جیسے جلتے ہوئے تیل پر پانی ڈالنے سے آتی ہے ۔ کچھ دیر بعد وہ خاتون بے ہوش ہوگئی اور جب ہوش میں آئی تو صحت یاب ہو چکی تھی۔
میری ملازمہ بھی جنات کی زد میں آگئی تھی،میں نے باباجی سے گزارش کی تو اس کا علاج کرنے کے لئے انہوں نے کوئی تعویذ نہیں دیا بلکہ یہ کہا’’ جب آپ گھر جائیں تو فون پر اس بچی سے میری بات کرادیں ‘‘
میں نے ایسا ہی کیا ،باباجی نے فون کا سپیکر کھولنے کا حکم دیا پھر انہوں نے لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ میرے ساتھ کلمہ پڑھو ‘‘ میری ملازمہ نے کلمہ پاک پڑھنے کی کوشش کی تو یکایک اسکی حالت خراب ہوگئی اور’’ لا‘‘ سے آگے کچھ نہ پڑ سکی۔باباجی نے اگلے ہی لمحے آیت الکرسی پڑھ کر لڑکی پر قابض جنّ کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اسکی جان چھوڑ دے ورنہ وہ جل کر بھسم ہوجائے گا۔بخدا یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ملازمہ کی آواز بھرا گئی اور پھر کوئی روتے ہوئے بین کرنے لگا اور بولا’’ جارہا ہوں باباجی،مجھے مارنا نہیں‘‘
چند منٹ بعد ہی لڑکی ہشاش بشاش ہوگئی۔ اور پھر اسے کبھی کوئی دورہ نہیں پڑا۔باباجی نے مجھے ایک بات سمجھائی کہ اللہ کا کلام پڑھنے والوں کو کوئی غیر مرئی مخلوق تنگ نہیں کرسکتی،اس کے لئے کسی عامل کی ضرورت نہیں ہوتی۔اگر گھر میں کوئی متقی اور کلام اللہ پڑھنے والا موجود ہوتو وہ بھی جنات کو حکم دے کر انسان کی جان چھڑوا سکتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔