عمرانی خط و کتابت کی باتیں سب چالیں ہیں

ترک صدر پاکستان کا دورہ کرکے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں انہوں نے صدر مملکت و وزیراعظم پاکستان سے ملاقاتیں کیں، دوطرفہ تعلقات کے مثبت انداز پر اطمینان اورجاری تعلقات کو اسٹرٹیجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔اسی دورے کے دوران 24 معاہدوں، ایم اویوز پر دستخط بھی کئے گئے سب سے اہم بات، تجارتی حجم 5ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔169سے زائد دنیا کے ممالک میں ترکی واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانیوں کی تھوڑی بہت عزت کی جاتی ہے۔ پاکستان اور ترکی مشہور زمانہ آر سی ڈی معاہدے کے تحت بھی جڑے رہے ہیں۔ ترکی حقیقت میں پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے۔ طیب اردوان کے دور حکمرانی میں دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات میں اور بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ادوارِ حکمرانی میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے۔ پاک ترک تعلقات موثر بنیادوں اور محبت کے رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ترکی کے صدر کا حالیہ دورہ اس کا عملی اظہار ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے یہ وفد اس بات کا جائزہ لینے کے لئے آیا ہے کہ پاکستان نے کیا معاہدے کے مطابق، معاہدے کی طے کردہ شقوں پر کس حد تک عمل درآمد کیا ہے۔ وفد نے بجٹ یوٹیلائزیشن مزیدبہتربنانے کے لئے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ وفد نے یہ تجویز ڈویلپمنٹ سیکٹر کے لئے بجٹ ریلیز سٹرٹیجی اور مانیٹرنگ سسٹم پر بریفنگ کے دوران دی۔ ویسے تو یہ بات اچھی ہے کہ بجٹ کے استعمال میں وہ تمام قواعد و ضوابط بروئے کار لائے جانا چاہئیں جو مروج ہیں اور ان کے نتائج بھی معلوم ہیں اور مصدقہ ہیں۔ ہمارے ہاں بجٹ دستاویز کو وہ تقدس حاصل نہیں ہے جو عموماً ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ بجٹ کیا ہے؟ تخمینہ ہے آمدنی و اخراجات کا۔ حکومت یہ طے کرتی ہے کہ آنے والے بارہ مہینوں یا 365 دنوں میں آمدنی کتنی ہوگی او رکہاں سے حاصل کی جائے گی؟اخراجات کیا ہوں گے اور کن کن مدات پر خرچ کئے جائیں گے۔ یہ دستاویز بڑی عرق ریزی اور مہارت سے تیار کی جاتی ہے۔ پھر اسے پارلیمان میں عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اس پر بحث و تمحیص ہوتی ہے اس میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں مسودے میں تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں بالآخر حتمی مسودہ کی منظوری کے بعد بجٹ تجاویز، ایک مقدس دستاویز کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جس پر آنے والے سال کے 365دنوں میں عمل کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس دستاویز کو بجٹ ڈاکومنٹ کو وہ عزت نہیں دی جاتی جو مہذب اور جمہوری معاشروں میں دی جاتی ہے۔ بجٹ دستاویز بنانے اور اسے منظور کرنے والے خود بھی اس کی مخالفت میں لگ جاتے ہیں۔ حکمران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر طے کردہ معاملات،بجٹ ایلوکیشنز میں حسبِ منشا رد و بدل کر دیتے ہیں۔ ادھر کے فنڈ اُدھر لگا دیئے جاتے ہیں۔ آمدنی کے لئے لگائے گئے ٹیکسوں کی شرح میں رد و بدل کر دیا جاتا ہے۔منی بجٹ لائے جاتے ہیں، کئی دفعہ تو منی بجٹ لانے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا اور تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں۔ ایسی ہی روایات کے خاتمے کے لئے آئی ایم ایف نے بجٹ کے استعمال کو مزید بہتر بنانے کے لئے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ بجٹ دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے جو کچھ اسمبلی نے پاس کیا ہے، اس پر عملدرآمد کو مانیٹر کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ اس لئے بھی ہے کہ ہم قرض لیتے وقت آئی ایم ایف کے ساتھ کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کے جو وعدے کرتے ہیں، ان پر عملدرآمد ہوتا دیکھ سکے۔ آئی ایم ایف اپنے فنڈز کا منصفانہ استعمال یقینی بنانا چاہتا ہے وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ قرض لینے والا ملک (پاکستان) قرض واپس بھی کر سکے، طے شدہ اقساط کی واپسی کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف بجٹ دستاویز میں درج اقدامات پر من و عن عمل کیا جائے بلکہ فنڈ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی شرائط پربھی عمل درآمد ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر معاملات گڑ بڑ ہو جاتے ہیں ویسے پاکستان نے آج تک اپنے تمام عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کیاہے۔ وعدے پورے کئے ہیں، اس لئے ہمارا ریکارڈ اچھا ہے، مثبت ہے اس پر کسی قسم کے داغ دھبے نہیں ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہم معاشی طور پر نہ صرف عدم استحکام کا شکار ہیں بلکہ ہماری معیشت مستحکم و پائیدار بنیادوں پر استوار نہ ہونے کے باعث کمزور اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ عالمی ادارے براہ راست مداخلت کاری کے ذریعے معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی ایسا ہی کررہا ہے ہمیں اس بات پر پریشانی یا پشیمانی نہیں ہونی چاہیے کہ آئی ایم ایف ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں کررہا ہے، وہ ہمارے قاضی القضاہ سے کیوں مل رہا ہے، بات یہ ہے کہ وہ ہمارا قرض خواہ ہیں، ہم قرض دار ہیں۔ قرض دار کو جھکنا ہی پڑتا ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی بات عمران خان کی خط و کتابت کے بارے میں کرلیں۔ مجھے اس بارے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عمران خان افتراق و انتشار کے ایجنڈے پرعمل پیرا ہے۔1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر جیل یاتر تک، اس نے اپنا کلیدی فرض کبھی نہیں بھلا یا اس کا ہر ایک قدم، اس کی ہر ایک چال، اس کی ہر موو اور اس کے بیانات، اس مرکزی و محوری مقصد وحید کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ عمرانی سیاست نے پاکستان میں فکری انتشار اور عملی انارکی پھیلائی ہے۔ معاشرہ تقسیم ہو گیا ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ، ہر شعبہ، ہر ادارہ اسی تفریق کا شکار نظر آتا ہے ویسے تو ریاست نے عمرانی سیاست کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اس کی شیطانی حرکات کو محدود کر دیا ہے لیکن کیونکہ وہ تخریب کاری اور انتشار پر مامور ہے اس لئے وہ جیل میں بیٹھ کر بھی کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے مقصد وحید کے حصول کے لئے کاوشیں کرتا رہتا ہے۔ خط و کتابت کا سلسلہ اسی سمیت میں ایک قدم ہے۔ حال ہی میں اس نے آرمی چیف کے نام تیسرا کھلا خط سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے جس میں آرمی کو بھی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ خط کے مندرجات پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو اس میں اس مقصدوحید کے حصول کی جستجو نظر آتی ہے جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے۔ ویسے آرمی چیف نے اس کا جواب خوب دیا ہے۔ ویسے انہیں خط ابھی ملا نہیں ہے لیکن انہوں نے خوب کہا ہے کہ خط کی باتیں سب چالیں ہیں، آیا تو پڑھوں گا نہیں، وزیراعظم کو بھجوا دوں گا، کیا خوب جواب ہے۔