حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الشریف (2)

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں مولیٰ ہوں علی اس کا مولیٰ ہے۔“ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے جس نے علیؓ کو برا کہا اُس نے مجھے برا کہا۔ ابوبکر بن عبداللہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ شام سے ایک آدمی آیا، اس نے ابن عباس کے سامنے حضرت علیؓ کو برا بھلا کہا، ابن عباسؓ نے اس کو تھپڑا مارا اور کہا۔ ”اے دشمن خدا تو نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اذیت پہنچائی۔“
ابوعمر مجمع تیمی کہتے ہیں حضرت علیؓ نے جو کچھ بیت المال میں تھا سب مسلمانوں کو بانٹ دیا پھر جھاڑو دلوائی اور اس میں نماز پڑھی تاکہ ان کے لیے قیامت میں گواہ رہے۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ ابوطفیل کا بیان ہے حضرت علیؓ خطبے میں کہہ رہے تھے کتاب اللہ میں جو پوچھنا ہو مجھ سے پوچھو خدا کی قسم کوئی ایسی آیت نہیں جس کے متعلق نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی یا جبل میں۔
عمر بن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے کہا: غصے کو ضبط کرو اور کم ہنسو دل کھول کر نہ ہنسو۔ محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ سے دریافت کیا گیا کہ آپ قبرستان میں زیادہ کیوں بیٹھتے ہیں فرمایا وہ مردے اچھے ہم نشین ہیں، برائی کو روکتے ہیں اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔
ابن عباسؓ فرماتے ہیں علیؓ چار باتوں میں منفرد ہیں:
1۔انہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا علم ہر جنگ میں اُن کے پاس رہا۔
3۔جنگ اُحد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ 4۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غسل دیا اور قبر میں اُتارا۔
شیرخدا حضرت علیؓ غیرمعمولی علم و حکمت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان میں فطانت اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر معاملے کا فیصلہ بڑی دانائی اور حکمت سے کرتے تھے۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں بڑی قدرت رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی دین تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی حضرت علی مرتضیٰؓ کی معاملہ فہمی اور فطانت و ذہانت سے متاثر تھے یہی حال دیگر صحابہ کرام کا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت علیؓ جیسی فضیلت و برتری کسی کو بھی حاصل نہ ہوسکی۔ یہ کیا کم ہے کہ
”بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت“
آپ کی ولادت کے وقت دیوارِ کعبہ شق ہوئی اور خانہئ کعبہ آپ کی والدہ ماجدہ کا زچہ خانہ بنا۔ فارسی کا یہ مشہور شعر اس حوالے سے ہے کہ
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
مسجد کوفہ میں ۱۹ویں رمضان کو ابن ملجم نامی ملعون، شقی القلب قاتل نے حضرت علیؓ پر اُس وقت خنجر کی ضرب لگائی جب آپ نماز میں مشغول تھے۔ ۲۱رمضان کو آپ کا وصال ہوگیا۔ حضرت علیؓ دامادِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے، وصیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے یعنی آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نائب تھے ہجرت کی شب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے مطابق علی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بستر پر سوئے اور کافروں کو ظالموں کو شبہ بھی نہ ہوا کہ علیؓ سو رہے ہیں یا محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔
شبِ ہجرت ہے اور بستر نبیؐ کا
علی قائم مقامِ مصطفےٰؐ ہیں
شانِ علیؓ
ہم نے اک باصفا کو دیکھ لیا
شانِ صلِ علیٰ کو دیکھ لیا
شبِ ہجرت نبیؐ کے بستر پر
باخدا، باوفا کو دیکھ لیا
جذب میں آج ڈوب کر ہم نے
عشق کی انتہا کو دیکھ لیا
کس کو معلوم جو اُنہیں معلوم
ہم نے شیرِؓ خدا کو دیکھ لیا
دے رہا ہے علیؓ علیؓ کی صدا
درد نے کیا دوا کو دیکھ لیا