باہر جنگل اندر آگ۔۔ استعفی دیں یا نا دیں۔۔ بلا کا ٹلنا محال۔۔ استعفی نا اہلی سے بچا لے گا مگر کریمنل کاروائی کا در کھل جائے گا
پنامہ جے آئی ٹی رپورٹ وزیر اعظم نواز شریف کے لیے مسلسل در ر سر بن چکی ہے، جید قانون دانوں کا ماننا ہے کہ اگر وزیرا عظم سوموار کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی سماعت سے پہلے استعفی دے دیں تو اس سے نا اہلی کی تلوار یں نیام میں واپس جا سکتی ہیں، کیونکہ عمران خان اور شیخ رشید کی درخواستوں میں بنیادی استدعا وزیرا عظم کی نا اہلی بارے کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثے چھپا کر جھوٹ بولا ہے لہذا وہ صادق اور امین نہیں اور انہیں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی رو سے نا اہل قرار دیا جائے۔ استعفی دینے کی صورت میں سپریم کورٹ آسانی سے ان درخواستوں کو نمٹا سکتی ہے کہ فریق اس عہدے پر ہی نہیں تو نا اہل کیسے قرار دیا جائے۔ لیکن جےآئی ٹی رپورٹ میں بار بار وزیر اعظم سمیت ان کے خاندان کی جانب سے مختلف قانونی دستاویزی ثبوتوں میں ہیر پھیر کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مستعفی ہونے کی صورت میں نا اہلی ٹل تو جائے گی لیکن جے آئی ٹی رپورٹ کے تناظر میں ان کے خلاف ایک سے زائد فوجداری مقدمات کا آغاز ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ ایس ای سی پی کے چئیرمین ظفر حجازی کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں سپریم کورٹ رولنگ دے چکی ہے کہ دیکھنا ہو گا ظفر حجازی نے کس کے کہنےپر اپنے ماتحت افسران کو ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کا حکم دیا۔ اس مدعے کے تانے بانے وزیرا عظم کے عہدے پر فائز نہ رہنے والے نواز شریف تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی طرح جے آئی ٹی رپورٹ نے وزیر اعظم کی خلیج میں واقع ایک کمپنی میں ملازمت کی نشاندہی کی ہے ۔ بظاہر لیگی قیادت کہتی ہے کہ ایک دھیلا بھی وزیراعظم نے اس کمپنی سے تنخواہ کی مد میں موصول نہیں کیا۔ لیکن جے آئی ٹی رپورٹ میں ثبوت کے طور پر پیش کی گئی مذکورہ دستاویزات کی بنیاد پر بھی نواز شریف کے خلاف ایک نیا مقدمہ جنم لے سکتا ہے۔ باسٹھ تریسٹھ سے نجات ملنے کی صورت میں فوجداری مقدمات پر استثنی کا کھیل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں حاضر وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ چلنے کی مثال صرف یوسف رضا گیلانی کی ہے اور اس کیس میں سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق توہین عدالت اور فوجداری مقدمےمیں فرق ہے۔ لہذا فوجداری مقدمے میں استثنی کے معاملے پر سپریم کورٹ کی رولنگ ہی مطلع صاف کر سکتی ہے۔