ممبران اسمبلی کا اصل کام اور عوام کی سو چ

ممبران اسمبلی کا اصل کام اور عوام کی سو چ
ممبران اسمبلی کا اصل کام اور عوام کی سو چ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پاکستان اپنی تاریخ کے ہر مرحلہ پر مشکلات کا شکار رہا ہے اور اس کا   خمیازہ بھی ہماری قوم نے بہت زیادہ بھگتا ہے لیکن اب مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں شاید سمجھ نہیں آ رہی -سمجھ یہ نہیں آ رہی کہ ہم کس طرح کی غلطیوں کا ارتکاب کر چکے ہیں اور ابھی کس طرح کی غلطیوں کی طرف جا رہے ہیں-کیا یہ غلطیاں ایسی ہیں کہ ۔۔۔۔۔ 

۱. آج تک پاکستانی قوم کو یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ پارلیمنٹ قانون سازی اور ملک کی اندرونی اور بیرونی  بھاگ دوڑ کے لیے ہوتی ہے -اس الیکشن میں بھٖی عوام  یہی شکوہ کر رہی ہے کہ قومی اسمبلی کے ممبران پانچ سال بعد علاقہ میں آئے ہیں -درحقیقت ان سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ان لوگوں نے ایوانوں میں پانچ سال بیٹھ کر ملک کی عوام کے لیے کون سا نیا قانون بنایا ہے -آج تک کون سی قانون سازی ہوئی ہے -پاکستان میں ہم ابھی بھی انگریز کے بنائے ہوئے قانون کے محتاج ہیں ۔مثال کے طور پر پاکستان میں معاہدات کا ایکٹ 1882ء کا ہے اسی طرح شرکت داری ایکٹ 1932ء کا ہے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں-ان لوگوں نے عوام کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے کون سا قانون بنایا ہے-ہمارے حکمران اپنی جان بچانے کے لیے یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ووٹ کی طاقت اصل طاقت ہے لیکن حقیقت یہ ہے قانون اصل طاقت ہے اگر ہم اس بات کی اجازت دے دیں کہ ووٹ لے کر آنے والا ہر طرح کی پوچھ گچھ سے آزاد ہے تو اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ایک لاکھ لوگ مل کر کسی بھی قانون شکنی کو اخیتار کر لیں اور قانون ان کو نہیں روکے گا کیونکہ وہ زیادہ لوگ ہیں اس لیے معاشرہ ان کو غلط کی اجازت دے دے-ملک میں قانون کی عمل داری ہو گی تو ہر ایک خود ہی جواب دہی کے ڈر سے قانون کی پاسداری کرے گا-اگر کسی کو قانون سے کھیلنا آتا ہو گا یا قانون اس قدر کمز ور ہو گا کہ قانون کی عملداری نہ ہو تو پھر جنگل کا قانون چلے گا یعنی جو طاقت ور ہے  وہی قانون ہے۔ 

2. پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس کو چلانا حکومت کا کام ہے پھر اگر حکومت اس کام میں کامیاب نہیں ہو پاتی تو پارلیمان کا فرض ہے کہ اس کا احتساب کیا جائے -ملکی سلامتی کے لیے اقدامات کرنے پر پارلیمان حکومت کو مجبور کرے لیکن بہت بڑے بڑے معاہدات ہو جاتے ہیں اور کسی کو اس خبر تک نہیں ہوتی اور خبر ہوتی ہے تو دیر ہو چکی ہوتی ہے - یہی دوسری پالیسیوں کا حال ہے کہ پارلیمنٹ کی اول تو مداخلت ہوتی نہیں اگر کر بھی لی جائے تو مانتا کو نہیں۔ 

 3.معاشرہ اور ملک کامیاب ہوں تو افراد بھی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں -اس لیے افراد  کو معاشرے اور ملک کے لیے قربانی بھی دینا پڑتی ہے اور کوشش بھی کرنا پڑتی ہے لیکن اگر فرد یہ خواہش لے بیٹھے کہ ملک اور معاشرہ اس کے لیے قربانی دیں تو یہ اس شخص کی خود غرضی اور لالچ کی  بیوقوفانہ انتہا ہی کہی جا سکتی ہے -لیکن ہمارٖی قوم یہ کیوں نہیں سمجھ رہی کہ یہ ملک ان کے لیے ہے نہ کہ کسی ایسے شحض کے لیے جو ہر بار  الیکشن میں بلند بانگ دعوے کرے اور بعد میں  کو ئی ان کے حق کے لیے آواز تک نہ اٹھائے، کسی بھی فرد واحد کے لیے سارا نظام نہیں رک سکتا ۔یہ ملک  بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے ہے ۔یہاں شخصیات کی نہیں اداروں اور نظام کی ضرورت ہے جو آج تک نہیں بن سکے کیونکہ ہم  شخصیات کے پجاری ہیں-

 4. پاکستان کے معاشی حالات کو خراب کیا گیا ہے تاکہ یہ ملک نہ چل سکے -کسی بھی ملک میں تعلیم اور صحت اصل ضرورت ہے ملک میں سڑکوں کا جال بچھ جائے تو اس کے فوائد بہت کم ہیں کیونکہ اس پر چلانے کے  لیے گاڑی کی ضرورت  ہے ----بھوک اور افلاس کے مارے لوگوں کو اچھی تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی ضرورت ہے-ٹیکس کے نظام کی بہتری کی ضرورت ہے -اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جو بھی منصوبے بنائے گے وہ عوامی فلاح بہبود کی ضروریات پوری نہیں کرتے اس میں پاکستان کی ریکنگ 147ویں نمبر پر ہے-

دوستو۔۔ اس مرتبہ کسی جماعت کو سامنے نہ رکھٖیں بلکہ ملک کو سامنے سوچیں یہ کسی ایک طبقے کے لیے نہیں بلکہ ہر شہری کا ملک ہے۔ اگر کو ئی حکمران کام کر گیا تو اس نے کسی پر مہربانی نہیں کی ملکی وسائل میں سے اپنے خزانے بھی خوب بھرے ہیں ۔ہم اپنے حق کیلیے دھکے کیوں کھائیں- آزمائے ہوئے کو مزید  موقع دے کر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ شور مچانے والوں کی بولتی بند کرنے کے لیے بھی حساب مانگیں----

 ..

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -