میاں محمد فاضل ایک برانڈ ساز شخصیت

میاں محمد فاضل ایک برانڈ ساز شخصیت
میاں محمد فاضل ایک برانڈ ساز شخصیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علامہ اقبالؒ سے محبت کرنے والوں میں ہر قسم کے افراد شامل ہیں کچھ ایسے ہیں جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور انہوں نے علامہ اقبالؒ کی تحریروں اور اشعار سے براہ راست استفادہ کیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو بالکل سادہ طبیعت ہیں اور علامہ اقبالؒ کے اشعار و افکار سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیات میں میاں محمد فاضل کا نام بھی شامل ہے جنہیں علامہ اقبالؒ کا یہ شعر بہت پسند تھا۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
کہ جہانِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

بالکل عام سے سادہ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کے عادی تھے۔ چیمبر لین روڈ پر تمام مارکیٹ کیمروں اور فوٹو گرافی مصنوعات سے بھری ہوئی تھی۔ میاں محمد فاضل اپنے بیٹوں میاں طلعت محمود، میاں زبیر اور میاں احمد فاضل کے ساتھ مستقبل کے منصوبوں پر بات کرتے۔

ان کا پروگرام تھا کہ جدید سائنسی ترقی کی وجہ سے کیمرے، فلموں اور متعلقہ مصنوعات کے بزنس میں کمی آنے والی ہے اس لئے کسی نئے بزنس کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔

میاں طلعت کی طبیعت ذرا ریسرچ کی طرف مائل تھی اس لئے انہیں ذمہ داری دی گئی کہ کسی ایسی بزنس لائن کا انتخاب کیا جائے جس میں تیزی سے آگے بڑھنے کے مواقع ہوں اور مستقبل میں بھی ان مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہونے کے امکانات روشن ہوں بہت غور و بحث کے بعد طے پایا کہ وہ الیکٹرونک مصنوعات کی دنیا میں قدم رکھیں گے۔

چنانچہ پی سی ہوٹل میں ایک بھرپور تقریب میں اورینٹ الیکٹرونکس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس مجلس میں تمام حاضرین نے شعبہ کے انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا، اور مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ چنانچہ کمپنی نے آہستہ آہستہ مارکیٹ میں اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے جاپانی مصنوعات کی ایجنسی بھی حاصل کی گئی لیکن ان کی خواہش تھی کہ پاکستانی برانڈ ہی پاکستانی مارکیٹ میں ایسے فروخت ہوں جس طرح جاپانی برانڈ فروخت ہوتے ہیں۔
یہاں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ ضروری ہے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی بنی ہوئی اشیا استعمال کی جاتی ہیں لیکن ان مصنوعات کا برانڈ غیر ملکی ہوتا ہے کیونکہ بڑی بڑی غیر ملکی کمپنیاں اپنی پسند اور خواہش کے مطابق پاکستان سے بین الاقوامی معیار کی مصنوعات تیار کروانے کے بعد اپنا برانڈ بنا کر دنیا میں فروخت کے لئے پیش کر کے کئی سو گنا زیادہ منافع پر فروخت کرتی ہیں۔

مثلاً تازہ ترین مثال فٹ بال کی دی جا سکتی ہے۔ آئندہ چند روز میں شروع ہونے والے عالمی فٹبال میچ میں فیفا نے پاکستان فٹ بال کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے اس کا انتخاب کیا ہے۔ روس نے تو خلا میں بھی چند روز پہلے پاکستانی فٹ بال پہنچا دیا ہے۔

پاکستان کے بنے ہوئے فٹ بال دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ خریدے جائیں گے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فٹ بال کا برانڈ غیر پاکستانی ہوگا۔

جس سے پاکستان کو وقتی طور پر تو کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہوگا لیکن پاکستانی فٹ بال اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنے کے باوجود اپنے پاکستانی برانڈ سے دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب نہیں ہے جبکہ اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میاں محمد فاضل، طلعت، زبیر اور میاں احمد فاضل نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ ہم پاکستانی برانڈ کو مقبول بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیں گے۔

خوش قسمتی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت کا اجر دیا اور اورینٹ کی مصنوعات اس وقت پاکستان میں بالکل اسی طرح ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں جیسے کبھی جاپانی یا کسی دوسرے ملک کی الیکٹرونک مصنوعات کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ مقامی مارکیٹ میں گھومتے پھرتے ایک حیرت انگیز مشاہدہ کیا کہ الیکٹرونکس مصنوعات کے خریدار باقاعدہ نام لے کر اورینٹ کی مصنوعات طلب کرتے ہیں۔

یہ کسی برانڈ کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے۔ اور میاں طلعت کہتے ہیں کہ’’ این سعادت بزورِ با زو نیست‘‘۔۔۔ اللہ تعالیٰ جب قبولیت دیتا ہے تو عام سی چیز کو بھی عوام میں مقبول بنا دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے دن رات کی محنت اور سچے دل سے خوب سے خوب ترکی تلاش نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اس وقت میاں فاضل کے نام پر بے شمار فلاح و بہبود کے منصوبے کام کر رہے ہیں آئی ہسپتال میں غریبوں کے لئے بلا معاوضہ خدمات انجام دی جا رہی ہیں فیکٹری کے قریب ہی مسجد قائم کی گئی ہے مائی لاڈو کی مسجد کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے بے شمار منصوبے میاں محمد فاضل کے نام سے منسوب ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -