دہشت گردی،وزیراعظم کی اے پی سی

پاکستان لاریب حالتِ جنگ میں ہے کے پی اور بلوچستان وحشت کی زد میں ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی تحقیقات کے مطابق افغانستان میں 20دہشت گرد گروپ فعال ہیں جو پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں ان گروہوں کو پاکستان دشمن ممالک کی مالی اور فنی امداد بھی حاصل ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ہو یا القاعدہ اور تحریک طالبان خراسان اور دیگر سب افغانستان میں براجمان ہیں وہاں انہیں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں بلکہ وہ اپنے سپانسرز اور فنانسرز کے ساتھ آسانی سے رابطے بھی قائم کئے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی جیسے علیحدگی پسند گروہ بھی فعال ہیں اور انہیں بھی انہی فنانسرز اور سپانسرز کی حمایت حاصل ہے جو افغانستان والے گروہوں کو ملا رہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کے اغواء کا وقوعہ نہ صرف اپنی نوعیت کا منفرد واقع ہے بلکہ انتہائی شدید اور خوفناک بھی۔ اس واقع نے بلوچستان و کے پی میں جاری دہشت گردی کی جنگ کو اس طرح عیاں کر دیا ہے کہ اب اسے فیصلہ کن بنانا، ریاست پاکستان کی مجبوری بنتی نظر آ رہی ہے جس طرح ماضی میں اے پی ایس کے خوفناک واقع نے اس وقت جاری جنگ کو فیصلے کن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور پھر پوری سیاسی یکسوئی کے ساتھ، افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا اور ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر انہیں ناکارہ بنایا، لیکن پھر نوازشریف کے خلاف سلسلہ چل نکلا۔ عسکری قیادت نے عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا کو ساتھ ملا کر نوازشریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کا بیڑہ اٹھا لیا اس عزم کی تکمیل میں نیشنل ایکشن پلان دھرے کا دھرا رہ گیا۔ عمران خان کو سیاسی و سماجی منظر پر ابھارا گیا۔ اس نے نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور ہر ایک سیاستدان کے خلاف محاذ قائم کیا۔ چور ڈاکو کی صدائیں بلند کیں،سیاسی ماحول ہی نہیں بلکہ سماجی منظر بھی گدلا کر دیا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ فوج نے عمران خان کو ایک عظیم الشان لیڈر بنانے کی سرتوڑ کاوشیں کیں، اسی طرح دیگر سیاستدانوں کو حقیراور غیر معتبر بنانے کی کاوشیں بھی کی گئیں۔ ریاست ہر شے پر حاوی ہو گئی۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نے یک جان اور ایک صفحے پر ہو کر 44ماہی دور اقتدار میں جو کچھ کیا اس میں فتح افغانستان کا باب بھی شامل ہے۔ افغانستان میں پاکستان نے 20سال تک جو کردار ادا کیا اس سے ہمیں امید واثق تھی کہ کابل میں طالبان کے قبضے کے بعد یہاں پاکستان میں بھی معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ اگست 2021ء میں امریکی دوہا مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے نکل گئے ہم نے اسے اپنی فتح قرار دیا اور جنرل فیض حمید نے چائے کی پیالی نے معاملات پلٹ دیئے۔ طالبان نے اپنی فتح میں کسی کو شریک نہ کرنے کا اعلان کیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج طالبان ہمارے دشمن ہیں۔ ہم افغان طالبان کے ساتھ بھی حالتِ جنگ میں ہیں اور تحریک طالبان پاکستان تو پہلے ہی سے پاکستان کے خلاف ہے۔ عمران خان کے دورِ حکمرانی میں جہاں پاکستان کو بہت سے نقصانات پہنچے وہاں ہزاروں طالبان پاکستان کو شہری علاقوں میں بسانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ آج پاکستان میں جو دہشت اور وحشت کی شدید لہر جاری ہے تو اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عمران خان کے دور کے اس فیصلے کے نتیجے میں یہاں بسائے گئے تھے۔ ویسے تو پاکستان میں دہشت گردی کی ابتداء کے ڈانڈے جنرل ضیاء الحق کے مجاہدین افغانستان کو اشتراکی جارحیت کے خلاف سپورٹ کرنے کے فیصلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اس فیصلے کے نتیجے میں یہاں لاکھوں مہاجرین بس گئے۔ انہوں نے یہاں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی حاصل کرلئے اس طرح مہاجرین افغان کی ایک نسل پاکستان میں پل بڑھ کر یہاں بس گئی۔ اس کے بعد نائن الیون کے نتیجے میں جنرل مشرف کے فیصلے کے بعد یہاں دہشت گردی افغانستان سے ابل کر ہمارے ہاں پہلے بندوبستی علاقوں میں آئی، پھر پھیلتے پھیلتے کراچی کے ساحلوں تک آن پہنچی۔ امریکی جنگ نے یہاں ہمارے ہاں لاکھوں مہاجرین لا بسائے ان کی بھی ایک نسل یہاں بسی ہوئی ہے۔ یہ سب لوگ زبان کی بنیاد پر اکٹھے ہیں۔ دہشت گردوں کے معاون ہیں، پاکستان کے ساتھ کھلے عام دشمنی کا ظہار کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی افغانوں کے پاکستان بمقابلہ انڈیا میچز کے دوران پاکستان دشمنی اور انڈیا محبت کے مظاہرے کھلے عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہماری طویل افغان پالیسی اپنے برگ و بار لا چکی ہے، قطعاً ناکام نظر آ رہی ہے، ہم نے افغان طالبان کو اپنا سٹرٹیجک اثاثہ قرار دیئے رکھا ہم نے افغان طالبان کے ساتھ بہتری کی امیدیں لگائے رکھیں،ہمیں یقین تھا کہ کابل پر طالبان حکمرانی کے بعد ہماری سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ ہندوستان کی طرف سے افغانستان کی سائیڈ سے دراندازی بھی بند ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ جعفر ٹرین سانحے کے بارے میں واضح ہو گیا ہے کہ درانداز، دہشت گردوں کو ”را“ کی مالی و تکنیکی معاونت حاصل تھی جبکہ وہ افغانستان سے یہاں آئے تھے۔ بی ایل اے پاکستان دشمن گروہ ہے جو ریاست پاکستان کو نہیں مانتا یہ ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا کیا جائے؟ ویسے تو پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے نوازشریف کے نیشنل ایکشن پلان کا بڑے مثبت انداز میں ذکر کرتے ہوئے شہباز شریف کو نیشنل ایکشن پلان ٹو ترتیب دینے کا کہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلانے کا اعلان کر چکے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ قدم درست سمت میں اٹھائے جانے والا قدم ہے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس ناسور کے خاتمے کے لئے سوچ و بچار کرنا چاہیے لیکن یہ درست ہونے کے باوجود کافی نہیں ہے۔ چیلنج بہت بڑا ہے،ہمہ گیر ہے اس کے لئے اے پی سیز اور پلانز کافی نہیں ہوں گے ایسے اقدامات کے تحت وقتی طور پر ہم مسائل پر قابو پا بھی لیں تو یہ مستقل حل ثابت نہیں ہوگا۔ ہمیں بطور قوم، بطور ریاست مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا۔ ملک دشمنوں اور ناراض لوگوں کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کاروں اوراپنے حقوق کی بات کرنے والوں کے درمیان تفریق کرنا ہوگی۔ ناراض بلوچوں کو منانا ہوگا، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ انصاف ہی نہیں بلکہ ایثار کے ساتھ چلنا ہوگا۔ بلوچ عوام کے نمائندوں کو قومی دھارے میں لانے کی سنجیدہ کاوشیں کرنا ہوں گی اور ہاں ایسے سب گروہوں کو ساتھ بٹھا کر، ساتھ ملا کر ملک دشمن گروہوں کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اے پی سی اس سمت میں ایک قدم، پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔