مانگنے پہ پابندی لگ جائے تو
مانگنا ایک آرٹ ہے اگر مانگنے کا ڈھنگ آجائے تو سمجھیئے آپ فلاح پاگئے۔ کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ کم وقت میں زیادہ مانگا جائے۔ لمبی تمہید سے گریز کیا جائے۔ لیکن مانگا ایسے جائے ایسے کہ دینے والے کا دل پسیج جائے، اس طرح وہ زیادہ دے گا۔ جنھیں مانگنا نہیں آتا وہ سیکھ لیں کہ یہی کام خوشحالی کی ضمانت ہے۔ زیادہ تر لوگ مانگنے والوں کو اچھا نہیں سمجھتے، اور میں سمجھنے والوں کو، مانگنے والے انتہا درجے کے محنتی، سادہ اور انا نام کی شے سے انجان ہوتے ہیں، لہذا ان کی قدر کرنی چاہیئے، انھیں ہڈ حرام کہنا ہڈ حرامی کی توہین ہے۔ ہڈ حرام تو بستر ہی سے باہر نہیں آتے، کجا کہ در در مانگنے جانا، جو انتہائی محنت طلب کام ہے۔ گرمی سردی کی پرواہ کیئے بغیر سڑکوں چوراہوں میں کھڑے ہو کر مانگنا آسان کام نہیں، نہیں یقین تو کھڑے ہو کے دیکھ لیں، لگ پتہ جائے گا۔ مانگ کے کھانا چوری اور حرام کھانے سے بہر حال بہتر ہے،۔ اس میں کسی کا نقصان نہیں ہوتا، دینے والا کا بھی نہیں ہوتا۔
الحمد للہ ہمارے ہاں مانگنے والوں کی کمی نہیں۔ جس طرح مانگنے والوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے وہ دن دور نہیں جب اسے قومی طور پہ باقاعدہ پیشہ ڈکلیئر کر دیا جائے گا اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باہر کے ملکوں سے لوگ یہاں مانگنا سیکھنے آیا کریں، مانگنے کے بہترین طریقے ہمارے سوا کسی کو نہیں آتے،۔ یہاں ہر دوسرا شخص مانگنے میں کمال مہارت رکھتا ہے۔ بیشتر بیوائیں، بزرگ، خواتین، یتیم، اور معذور افراد سمجھتے ہیں کہ انھیں کمانے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ لہذا وہ مانگنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور بہت دھڑلے سے مانگتے ہیں۔ پانچ، دس روپے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا، اب تو سینکڑوں مانگتے ہیں۔
میری ایک عزیزہ کے گھر دوخواتین آئیں، دروازہ کھولا تو کہنے لگی خدا کے نام پہ پانچ سو دو۔ عزیزہ نے کہا تم تو زیادہ ہی فری ہوگئی، سیدھا پانچ سو پہ چلی گئی ہو۔ اس پہ خاتون کہنے لگی دیکھو انکار مت کرنا، ورنہ میری ساتھی عورت تمھیں بددعا دے گی،یہ بے اولاد ہے اور بے اولاد کی دعا رد نہیں جاتی۔ عزیزہ فرمانے لگیں تم مجھے ڈھائی سو دے کے اپنے لئے دعا کروا لو، میں بھی بے اولاد ہوں۔
بیوہ خواتین تو بالکل ہی بے جھجک ہو کر مانگتی ہیں، انھیں لگتا ہے اگر قسمت سے بیوہ ہو ہی گئی ہیں تو پھر چاہے مستحق ہیں یا نہیں لیکن اب صدقہ خیرات بلکہ ہر وہ چیز جو کسی دوسرے کے پاس ہے اس پر صرف انھی کا حق ہے۔ کئی خواتین تو شوہر کی میت پر ہی مانگ لیتی ہیں، ایسے کمال کے بین کرتی ہیں کہ فوتگی پہ آئے آدھے عزیز و اقارب تو ان کا مہینہ لگا کے اٹھتے ہیں اور وہاں بیٹھی کئی خواتین تبھی سوچ لیتی ہیں کہ وقت آنے پہ ہم بھی اسی طرح بین کریں گی انشاء اللہ۔ میری گلی میں ایک بابا آیا کرتا تھا، پہلے پہل اس نے کہا مانگنے والا نہیں ہوں، بیٹی کو سسرال بھیجنا ہے کچھ پیسے چاہئیں۔ میرا دل پسیج گیا، باپ کتنا مجبور ہوتا ہے، اسے پیسے دیتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں شرمندہ تھی کہ صرف پانچ سودے رہی ہوں۔ پھر وہ اکثر آنے لگا تو سمجھ گئی یہ تو پیشہ ور مانگنے والا ہے، اس کے بعد اسے پیسے نہیں دیئے، کبھی کبھی پیسے نہ دینے پہ اسے غصے آتا تو کہتا ”مریں تو کدی پیسے نہ دیئیں“۔ ایک دن گلی سے گذرتے ہوئے اس کے مانگنے پہ کہا بابا معاف کرو۔ تو کہنے لگا ”جا توویں میرے جئی ہوویں“۔
میری تو ہنسی ہی چھوٹ گئی۔ شکر ہے کوئی ملک ہمیں مانگنے پہ انکار نہیں کرتا ورنہ حکومتی وفد بھی واپسی پہ یہی کہہ کے لوٹیں ”جاؤ تسی وی ساڈے جے ہووو“ (جاؤ تم بھی ہمارے جیسے ہو جاؤ)
کچھ سیزنل مانگنے والے بھی ہوتے انھیں اگر شرمندہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہٹے کٹے ہو کر مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی تو وہ الٹا آپ کو شرمندہ کر دیتے ہیں۔ روز نہیں آتے ہم، تمھیں سال بعد بھی توفیق نہیں ہوتی کچھ دینے کی۔ ایک کو پیسے دو تو پیچھے پوری لائن ہوتی ہے مانگنے والوں کی، یہ اکثر رمضان یا عید کے دنوں میں آتے ہیں۔
اب تو سوشل میڈیا پر بھی مانگا جاتا ہے۔ ایک موصوفہ نے دو سال کے بچے کے لیئے دودھ مانگنے کے ساتھ ایک عدد لیپ ٹاپ بھی مانگا۔ پتہ نہیں دودھ پہلے پہنچا تھا یا لیپ ٹاپ۔
یہاں ہر کوئی مانگنے میں لگا ہے۔ عوام سے لیکر حکمران تک سب مانگ رہے۔ کبھی قرضوں کے نام پر تو کبھی امداد کے نام پر۔ باہر کی حکومتیں کسی آفت میں عوام کی مدد کرتی ہیں لیکن ہماری حکومتیں ہر کٹھن وقت میں عوام ہی سے مانگنا شروع کر دیتی ہیں۔ کبھی قرض اتارو ملک سنوارو، کبھی ڈیم تو کبھی سیلاب کے نام پہ۔ عالم یہ ہے کہ حکمران دوسرے ملک قرض مانگنے جائیں تو فنڈز کے نام پر ساتھ صدقہ خیرات بھی لے آتے ہیں اور وطن واپسی پر اس کی خوشخبریاں دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے ملک ٹیکسوں سے چلتے لیکن ہم مانگ تانگ کے چلا تے ہیں۔ مانگنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ اکثر حکومت بھی مانگے کی ہوتی ہے۔ کچھ سر پھرے کہتے ہیں مانگنا اچھا کام نہیں اس پہ پابندی لگنی چاہیئے۔ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ اگر حکومت مانگنے پہ پابندی لگا دے تو حکمران جہاز بھر کر کس منہ سے باہر کے ملک مانگنے جا ئیں گے۔