پیچ و تاب

میں زندگی کے پیچ و تاب میں الجھی ہوئی تھی کہ میسج آیا، پوسٹل ایڈریس وہی ہے یا تبدیل ہوگیا۔ جتنا مختصر سوال تھا اس سے زیادہ مختصر جواب، وہی ہے۔ اگلا میسج آیا اپنی کتاب”پیچ و تاب زندگی“ بھیج رہا ہوں، جلد مل جائے گی۔ صولت صاحب کی طرف سے جب پہلی بار مجھ سے پوسٹل ایڈریس مانگا گیا تو حیرت ہوئی کہ میری ان سے کوئی بے تکلفی نہیں تو یہ کون ہے جو اس طرح ایڈریس مانگ رہا۔ جھٹ سے دیوار (وال) پھلانگ کر ان کے گھر (آئی ڈی) جھانکا تو ہل گئی، کہ بھئی فوجی ہیں۔ اور فوج سے بھلا کون ٹکر لے سکتا ہے۔ سو بنا تاخیر ایڈریس بھیج دیا۔ ڈر تھا کہ فوجی کی نگاہ پڑگئی ہے، اب اللہ خیر کرے۔ لیکن پھر تسلی ہوئی کہ موصوف ریٹائرڈ ہیں۔ لیکن اب کی بار حیرت نہیں خوشی تھی کہ دیوار تکلف گر چکی تھی، وہ اور میں ایک ہی پیج پہ تھے، یعنی لکھنے کے۔
”پیچ و تاب زندگی“ ایک صحافی کی انتھک محنت کی داستان ہے۔ جس نے یونیورسٹی سے صحافت، صحافت سے فوج اور فوج کے توسط سے پھر صحافت کے میدان میں میں اپنے پنجے گاڑھے۔ اس کتاب میں مصنف کی ملک اور صحافت سے محبت صاف دکھائی دیتی ہے غم کے ریپر میں لپٹے جب پی ایم اے کاکول میں داخلے کی خبر ملی تو خوشی کی بجائے انہوں نے سقوط ڈھاکہ کا غم منایا۔ ملازمت کی ابتدا ہی میں ملازمت سے وابستہ ادارے پہ لکھنا شیر کی کھچار میں ہاتھ ڈالنا ہوتا ہے۔ لیکن موصوف اس کچھار میں نہ صرف زندہ رہے بلکہ کھانے کھلانے کا انتظام بھی کرتے رہے۔ کہ اچھا مزاح، اچھی کتاب خوراک ہی ہے جو پڑھنے والوں کو ملتی رہے تو صحت پہ اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور کاکولیات کی شکل میں اس خوراک کے مہیا کرنے پہ ہم مصنف کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پیچ و تاب مزاح پر مبنی کتاب ہے تو ایسا ہرگز نہیں کہ یہ کتاب کاکولیات کے بالکل برعکس ہے۔ البتہ قاری کی دلچسپی کے لئے کہیں کہیں واقعاتی پھلجڑیاں بھی شامل ہیں جس سے قاری کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔ تاہم مصنف سے شکوہ ہے کہ اس نے بہت اندر کی کہانیوں سے محروم رکھا ہے۔
لیفٹیننٹ بولنے میں اتنا مشکل ہے تو سوچیں عملی طور پہ کیا بلا ہوگا۔ اچھا ہی ہوا جو مصنف کی اس لفٹینی سے جان چھوٹ گئی اور وہ آئی ایس پی آر میں چلے گئے۔ ورنہ کتاب پڑھنے کے دوران میں تو لیفٹیننٹ ہی میں الجھے رہنا تھا۔
سیاسی ورکرز کے لیئے اس کتاب میں بہت سی معلومات ہیں۔ نوجوانوں بالخصوص سیاسی ورکرز کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے کہ وہ جان سکے ان کے من پسند لیڈر کس طرح انہیں استعمال کر کے خود چائے کی میز پہ ہاسیاں کھیڈیاں کررہے ہوتے ہیں۔ کراچی کی دو مشہور سیاسی جماعتوں کے تنازعے میں اغوا کیئے جانے والے ورکرز کا حال مصنف یوں لکھتے ہیں کہ
”میں نے زخمی نوجوان طالب علموں کو اپنے دفتر کے سامنے پارکنگ ایریا میں اترتے دیکھا تو کلیجہ منہ کو آگیا۔ ایسا ہولناک منظر شاید کبھی دیکھا ہو۔ زیادہ تر اردو بولنے والوں کے بچے تھے۔ ایم کیو ایم کے علاوہ یہ پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن تھے۔ بعض نوجوانوں کے مخصوص اعضاء کو ٹارچر سیل میں ڈرل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مخالف کی کمر اور چھاتی پر ڈرل مشین سے حریف تنظیم کا نام کندہ کر دیا۔ زخمیوں کی حالت سے وحشت اور درندگی عیاں تھی“۔
جنرل احتشام کے واقعے سے پولیس کلچر آشکار ہوتا ہے۔ ان سے گذارش ہے وہ مصنف کی بات مانتے پولیس ٹریننگ کے دوران گذرے شب و روز کو زیب قرطاس کر دیں۔ تاکہ اندر کے حالات باہر آئیں۔
کتاب پڑھنے کے دوران سب سے بڑا جھٹکا پینسٹھ کی جنگ کے بعد سرکار کی طرف سے پھیلائی جھوٹی افواہوں سے لگا کہ مذہب کو سرکاری سطح پر بھی نہیں بخشاگیا۔ اور مذہب کا نام لے کر کس طرح لے کر سیدھی سادھی عوام کو بیوقوف بنایا گیا۔ اس کتاب میں کراچی سے لے کر بوسنیا تک کے حالات و واقعات ہیں کراچی کی دہشت گردی سے لے کر اوسیک کے امام کے سامنے لڑکی کا ویک اینڈ کلب کا تقاضا کرنا سب کچھ ہے۔ لڑکی کا ایسا تقاضا پڑھ کے حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں امام مسجد کے سامنے ایسا سوچنے کی کوئی مرد بھی جرات نہیں کرتا، کہ واجب القتل نہ قرار دے دیں۔ لیکن آفرین ہے امام صاحب پر، کہ انھوں نے استغفار پڑھتے ہوئے لڑکی کو ملعون اور جہنمی بھی نہ کہا۔ اور اس سے بھی زیادہ جرات مصنف کی ہے۔ جنھوں نے بروقت فیصلہ کیا اور مسجد کا چندہ ڈانس پارٹی کو ڈونیٹ کردیا۔ یہ ہوتے ہیں اصل ”مدبر“۔
تاہم ایک واقعہ نے آرزردہ کر دیا۔ وہ تھا بچے کا فوجی کی گاڑی دیکھ کر سیلوٹ کرنا۔ فوج کے لئے یہ احترام قریباً ختم ہوچکا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ کہ اگر کوئی فوجی یا فوج کے لیئے سیلوٹ یا پوسٹ کرتا ہے تو وہ محبت نہیں ویگو کا ڈر ہوتا ہے۔ جو بہت کربناک ہے، اسے بدقسمتی کہیئے کہ سیاستدانوں نے ہمیشہ فوج کو اپنے تابع رکھنے کی کوشش کی اور فوج نے سیاستدانوں پہ کمند ڈالنے کی مشق جاری رکھی۔
بہرحال مصنف کی بے باک جراتوں کو سلام جس نے پورے قلم سے آدھا سچ لکھ ڈالا۔ مزید آدھے سچ کا انتظار ہے۔