موت باٹنے والی سموگ! سنجیدہ اقدامات اور آگاہی مہم کی ضرورت

موت باٹنے والی سموگ! سنجیدہ اقدامات اور آگاہی مہم کی ضرورت
موت باٹنے والی سموگ! سنجیدہ اقدامات اور آگاہی مہم کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تین چارسال سے اہل لاہورکو سموگ کا نام سننے کو ملاہے ورنہ پنجاب بھر میں فوگ کا دور دورہ ہوتا تھا یہ بھی بھرپور سردی کے دِنوں میں ہوتی تھی،موسمی تبدیلیوں کے اثرات پوری دنیا  کے ساتھ بڑی تیزی سے پاکستان میں بھی رونما ہونا شروع ہوئے ہیں 13نومبر کو پنجاب بھر میں بھرپور سردی ہو جاتی تھی اس وقت بھی لوگ گھروں،دکانوں میں پنکھے چلانے پر مجبور ہیں بعض دفاتر میں تو اے سی تک چلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔دوسری طرف سموگ نے اچانک دن کو رات میں بدلنا شروع کر دیا ہے۔عالمی ادارہ موسمیات خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری حکومت بھی ماحول کی تبدیلی پروگرام کی مد میں 100ارب روپے مختص کر چکی ہے۔پنجاب حکومت نے لاہور کو ٹارگٹ کرتے ہوئے سموگ کے تدارک کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینا شروع کیا تو پتہ چلا کہ ملتان لاہور سے بھی آگے نکل چکا  ہے فیصل آباد بھی تیزی دکھا  رہا ہے۔دنیا بھر میں موسموں کی تبدیلی جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اقوام متحدہ بھی سنجیدہ اقدامات پر مجبور ہو گیا ہے ان دِنوں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس انعقاد پذیر ہو چکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کانفرنس میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور آنے والے خطرات سے آگاہ کر چکے ہیں۔ ایم ڈبلیو او اور اقوام متحدہ دنیا بھر کو الرٹ جاری کر رہے ہیں عالمی حدت خطرے کے نشان سے تجاوز کر رہی ہے اور اس میں ہر سال اضافہ ہو گا یہاں تک کہہ دیا گیا ہے آنے والا سال تاریخ کا سب سے گرم سال ہو گا۔ لاہور ہائیکورٹ جو مسلسل ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے سماعت کر رہا ہے اس کے تحت ریمارکس پر  وزیر ماحولیات نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب سے سموگ کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی تفصیل جاری کی  ہے۔ بتایا گیا 100 ارب روپے  کے10سالہ پروگرام میں 10ارب سے فوری طور پر 36اضلاع میں ایکشن پلان بنا لیا گیا ہے، تمام سرکاری اور نجی گاڑیوں کی فٹنس یقینی بنانے سمیت پرانی گاڑیوں کی تبدیلی شامل ہے،دھوئیں سے نجات کے لئے الیکٹرک موٹر سائیکل چھوٹی تین ویلر ٹرانسپورٹ کو ترجیحی بنیادوں پر چلانے کا بتایا گیا ہے۔پنجاب حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر گرین لاک ڈاؤن کا نفاد کیا ہے جس کے تحت دکانیں آٹھ بجے بند کرنے اور اتوار کو مکمل شٹر ڈاؤن کی ہدایت کی گئی  ہے۔ پنجاب کے18اضلاع میں کھیلوں کے میدان، عجائب گھر، چڑیا گھر  تک تمام تفریحی مقامات بھی17نومبر تک بند کر دیئے گئے ہیں۔ لاہور ورلڈ سٹی نے تمام تفریحی اور ثقافتی پروگرام اور تقریبات منسوخ کر  دی ہیں، ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ناک، کان، گلے، آنکھ، سینے کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو لوگ سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں وہ اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو محتاط رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ بتایا گیا پانچ سے نو دسمبر1952ء کو لندن میں ہزار ٹن سموگ پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے۔ ان میں 140ٹن ہائیڈرو کلورک اور14ٹن کلورین کمپاؤنڈ370 فن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھیں یہ تمام مادے انسانی صحت کے لئے سخت مضر ہوتے ہیں۔بتایا گیا ہے سردی پڑی تو لوگوں نے انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا،لاکھوں ٹن دھواں پیدا  ہوا یہ دھواں ساڑھے سات سو سال کی آلودگیوں میں مکس اپ لیوا دسمبر کی دھند کو سموگ اور فاگ دو لفظ  ملا کر سموگ کا نام دیا گیا لندن کے سانحہ کو گریٹ سموگ آف لندن قرار دیا گیا۔

اب ہم لندن سے لاہور کی طرف آتے ہیں جو گزشتہ تین سال سے شدید سموگ کا شکار ہے۔لاہور، ملتان،بہاولنگر،پاکپتن، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ زہریلی دھند میں گم ہو جاتے ہیں ہماری فضاء میں اگر80مائیکروگرام زہریلے مادے ہوں تو  ہمارے پھیپھڑے انہیں برداشت کر جاتے ہیں اس وقت آلودگی200 مائیکرو گرام کیوبک  میٹر ہے۔ بتایا گیا ہے اگر ہم روزانہ50 سگریٹ پئیں اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا آج کل سموگ کی بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ہم اہل لاہور سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر فارغ ہو جاتے ہیں، حالانکہ تاریخ بتاتی ہے 2012ء میں بھارت میں لاکھوں افراد موت بانٹنے والی سموگ کی نظر ہو گئے۔بتایاگیا  ہے اب تک لاہور اور دیگر علاقوں کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں 2028ء تک مرض بڑھنے کا خدشہ ہے جس میں موت شامل ہے سموگ کیا ہے تو پتہ چل گیا۔ اب سوال اٹھتا ہے سموگ کہاں سے آ رہی ہے اس  کے چار بڑے سورس ہیں۔ بھارتی شہر ہریانہ میں دس سال میں چاول کی فصل میں آٹھ گنا اضافہ  ہوا ہے۔ کسان ہر سال اکتوبر کے آخر میں چاول کے پودے کے خشک ڈنڈل اور خالی سٹے کو جلاتے ہیں اس سال تین کروڑ50لاکھ ٹن ڈنڈل جلائے گئے اِس سے دہلی سے لاہور تک متاثر ہوتے ہیں دوسری وجہ لاہور کی فیکٹریاں،پاور پلانٹس ہیں، بڑا سورس گاڑیاں ہیں 10لاکھ سے زائد ناقص دو نمبر  پٹرول پر چل رہی ہیں۔اب سوال اٹھتا ہے سموگ میں کس کا کتنا حصہ ہے فصلوں کی باقیات3.9 فیصد، گاڑیوں کا دھواں 83.15، کچرا جلانا 3.6 فیصد، صنعتی سرگرمیوں سے 9.07 فیصد،گھریلو کچرا 0.11، کمرشل کچرا 0.14فیصد ہے۔ عجیب تماشاہے ہماری پنجاب حکومت تعلیمی اداروں،دکانوں اور شادی حال کو بند کرنا سموگ کے آگے پُل باندھنا قرار دیتی ہے،حالانکہ تعلیمی ادارے بند ہونے سے بچے بچیاں کیا گھروں میں بند ہو جاتے ہیں ہرگز نہیں۔ تعلیمی ادارے، دکانیں، شادی حال اور ادارے بند کرنے سے ہمارے پاکستان کے مستقبل کے معمار اور کاروبار بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔میری ذاتی تحقیق کے مطابق عوام کا سنجیدہ نہ ہونا حکومتی اقدامات پر عمل نہ کرنے کی بنیادی وجہ سموگ اور اس کے اثرات سے آگاہی کا نہ  ہونا ہے۔ حکومت نے 100ارب رکھے ہیں اس میں سے کچھ صرف آگاہی مہم کے لئے رکھے جائیں اس کے لئے امام بارگاہوں، مساجد، مدارس، انجمن تاجران، دیگر این جی اوز اور سول سوسائٹی سے مل کر سیمینار کروائیں، موثر آگاہی فراہم کی جائے اور بتایا جائے سب اقدامات سستی شہرت کے لئے نہیں آپ اور آپ کے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے لاہوریوں کی دُعائیں رنگ لائی ہیں آج سے پنجاب اور دیگر شہروں میں بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے، وقتی ریلیف تو بارش سے مل جائے گا مستقل حل کی طرف بڑھنا چاہئے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -