جشنِ صوفی تبسم                (2)

     جشنِ صوفی تبسم                (2)
     جشنِ صوفی تبسم                (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نسیم شاہد نے جشنِ صوفی تبسم کی افتتاحی تقریب میں صوفی تبسم کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوفی تبسم کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ان کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔ وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ان کا نام اردو ادب کے مشاہیر کی صف میں نمایاں ہے۔ صوفی تبسم نے لاہور میں رہ کر علم و ادب کے شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مگر ان کے نام پر نہ کوئی ادارہ بنایا گیا اور نہ ہی کسی آرٹ اور فن کے ادارے کو ان سے منسوب کیا گیا جبکہ ان سے جونیئر اور کم اہمیت کے حامل افراد کو مختلف وجوہات کے باعث لاہور کی شناخت بنایا گیا ہے حالانکہ لاہور کی ایک بڑی شناخت صوفی غلام مصطفےٰ تبسم ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی ادب اور کلچر کی ترویج و ترقی کے لئے انتھک محنت کی،بہت سے ادارے خود بنائے اور ان کو بامِ عروج پر پہنچایا جو ادارے آج بھی قائم و دائم ہیں۔ نسیم شاہد نے کہا کہ اتنی قد آور شخصیت جس کی اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے بے حد خدمات ہوں اس کا دن اور ان کا جشن حکومتی سطح پر منایا جانا چاہیے۔ اس پروگرام کی میزبان ہونے کے ناتے انہوں نے مجھے اپنا مضمون پڑھنے کا موقع دیا جس میں میں نے صوفی تبسم کے حوالے سے کچھ ضروری مگر مختصر بات کی تاکہ ہر مہمان گرامی اپنے دل کی بات کہ سکے  اور حاضرین تک پہنچا سکے۔ راقم نے معززین کرام علم و ادب کے نابغہء روزگار شخصیات حاضرینِ محفل خواتین و حضرات کے اس پروگرام پر آنے کا شکریہ ادا کیا اس کے بعد الحمرا آرٹس کونسل جس نے ہمیں الحمراء ہال فراہم کیا کہ ہم خوش اسلوبی سے اس پروگرام کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکیں۔ جناب طارق اللہ صوفی (صوفی گروپ آف کمپنیز)کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے پروگرام سپانسر کیا۔ 14ستمبر نہ صرف صوفی خاندان کے لئے ایک فخر و انبساط کا دن تھا بلکہ اردو ادب سے محنت کرنے والوں اور عاشقانِ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کے لئے بھی خوشی کا موقع تھا کیونکہ ہم سب لاہور کے عظیم فرزندہ، ادب کے آفتابِ درخشاں علم و ثقافت کے ماہتاب ِ عالم صوفی غلام مصطفےٰ کے 125سالہ جشنِ ولادت کے لئے اکٹھے ہوئے تھے ہم اپنی محبتوں کا خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔صوفی تبسم ادب کا ایک ایسا حوالہ ہیں جن کا آج بھی ذکر ہوتا ہے تو بزرگوں سے لے کر نئی نسل تک ان کا تعارف کرانے کے لئے کوشش نہیں کرنا پڑتی بلکہ سننے والا ان کے نام پر ان تمام حوالوں کو ذہن میں لے آتا ہے جو صوفی تبسم سے منسوب ہیں میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ جتنی عظیم شخصیت صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کی ہے انہیں اس طرح کا مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں۔ ہم ایک عرصے سے مختلف حکومتی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرا رہے ہیں کہ لاہور جس کے لئے صوفی تبسم نے اپنی ساری زندگی وقف کئے رکھی اس پر ان کا قرض ہے ان کے لئے ایک شاندار آرٹ سینٹر اور میوزیم بنایا جانا چاہیے قومیں اپنے مشاہیر کو یاد رکھتی ہیں کیونکہ وہ تاریخ کا وہ تسلسل ہوتی ہیں جو ٹوٹ جائے تو قوم آنے والی نسلیں اپنی تہذیب و ثقافت اور ادب کی شناسائی سے بے بہرہ ہو جاتی ہیں۔ اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راقم نے ان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی کہ جو ہال آف فیم بناتے وقت صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کو نظر انداز کرنے سے متعلق ہے۔ وہاں مشاہیر کی تصاویر ہیں مگر صوفی تبسم کی تصویر نہیں ہے اور یہ ادب کی تاریخ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی ہے۔ میری ان الفاظ کے بعد نسیم شاہد نے اپنی میزبانی سنبھالی اور معروف ادیبہ، ناول نگار، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار  حال ہی میں ستارۂ امتیاز کا اعزاز پانے والی شخصیت سلمیٰ اعوان جنہیں میں پیار سے سلمیٰ آپا کہتی ہوں کو اظہار خیال کے لئے بلایا گیا۔ سلمیٰ آپا نے صوفی تبسم پر بہت خوبصورت مضمون لکھا تھا۔ انہوں نے صوفی تبسم کے حوالے سے اپنی بچپن کی یادوں کو تازہ کیا انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صوفی تبسم کی شاعری کس طرح ہماری شناخت بنی ہوئی ہے اور اس کا خمیر اپنی مٹی سے اُٹھا ہے۔ صوفی تبسم کی بچوں کی نظمیں انہیں ازبر ہیں۔ سلمیٰ آپا ہمیشہ صوفی تبسم کے ہر پروگرام میں ضرور تشریف لاتی ہیں اور اس میں وہ ان سے اپنے پیار اور خلوص کا اظہار بھی کرتی ہیں اور انہیں ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر مظفر عباس معلم ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب بھی ہیں انہوں نے جو دور ایف سی کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے اور ایجوکیشن یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی حیثیت سے گزارا وہ لائق تحسین ہے انہوں نے اپنے اداروں کو کس طرح ترقی سے ہمکنار کیا اور انہیں بام عروج پر پہنچا کر دم لیا۔ ڈاکٹر مظفر صاحب نے ان اداروں کی طرح صوفی تبسم اکیڈیمی کے لئے بھی جو تجاویز دیں ہم آج بھی ان پر عمل پیرا ہیں اور ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے 27برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اکیڈیمی کے اغراض و مقاصد انہی کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہیں۔ وہ عاشقانِ صوفی تبسم ہیں اور آج بھی ان کی باتیں اور یادیں شیئر کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو جاتے ہیں ان کا اس پروگرام میں شرکت کرنا میرے لئے بے حد خوشی کا باعث تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے پورے گھرانے سے ہی بے حد محبت کرتے ہیں۔ صوفی تبسم کے وہ باقاعدہ شاگرد تو نہیں لیکن وہ انہیں اپنا استاد مانتے ہیں بقول ان کے انہوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور ان کی شفقت اور محبت بھی انہیں نصیب ہوئی جسے وہ آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صوفی تبسم کے ساتھ گزارے لمحات کا وہ اکثر ذکر کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے کالموں میں بھی ذکر کیا ہے جس کا عنوان ”کہانی در کہانی“ ہے اسے آپ Onlineپڑھ سکتے ہیں۔ آپ ضرورمحظوظ ہوں گے۔

میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ اس پروگرام کے آغاز میں نسیم شاہد نے قاری احمد مبارک الحسینی کو سٹیج پر قرأت کے لئے درخواست کی جو گورنمنٹ  کالج یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم ہیں ان کی قرأت  میں ایسا سرور تھا کہ ہم سب سبحان اللہ کہتے رہے۔ اللہ ان کی تلاوتِ کلام کے سوز و گداز میں مزید برکت دے، ان کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طالب علم حسنین مظہری نے صوفی تبسم کی نعت رسولؐ مقبول پڑھی تمام سامعین ان کی خوبصورت  آواز اور صوفی تبسم کے کلام میں لکھی پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیؐ کی مدحت تعریف و توصیف نظمی اندازِ بیاں اور حسنین مظہری کی نعت گوئی میں کھو گئے۔ہر طرف سے جزاک اللہ کی آوازیں گونجتی رہیں۔ میری ڈاکٹر نجیبہ عارف سے بھی ملاقات نہ ہوئی تھی جو اس وقت چیئرپرسن اکیڈیمی ادبیات ہیں مگر ملنے کا اشتیاق ضرور تھا۔ نسیم شاہد سے انہیں پروگرام پر بلانے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا آپ فون کریں انہوں نے ہی فون نمبر دیا اور میں نے بڑے جوش و جذبے سے ان سے بات کی مجھے ان کی گفتگو سے  ہی ان کی شخصیت کے بارے میں اندازہ ہو گیا تھا نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور انہوں نے پروگرام میں آنے پر اپنی رضامندی ظاہر کر دی ان کی محبت نہ صرف صوفی تبسم سے بلکہ ان کے خان وادی سے بھی یہ ان کی بڑئی تھی انہوں نے ہمیں عزت بخشی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بہت نپے تلے انداز منطق اور دلیل سے صوفی تبسم پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ صوفی تبسم جیسے عظیم لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -