درختوں کا نوحہ اور ابنِ آدم۔۔۔۔

Sep 15, 2021 | 12:04 AM

زینب وحید

آج آپ کا ایک چھوٹا سا امتحان لیتی ہوں ،  دیکھتی ہوں کہ یہ جملہ پڑھ کر آپ کا ردعمل کیا ہو گا کہ  "دنیا بھر کے جنگلات میں  تین میں سے ایک درخت کو ناپید ہونے کا خطرہ ہے"۔  مجھے یقین ہے کہ میرے قارئین میں سے کسی  پر زیادہ اثرتو  نہیں ہوا ہو گا لیکن  جیسے جیسے آپ میرا یہ آرٹیکل پڑھتے جائیں گے، فکر بڑھتی جائے گی لیکن زیادہ مایوسی کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اسی تحریر میں امید کی کرن بھی موجود ہے ۔
"دنیا بھر کے جنگلات میں  تین میں سے ایک درخت کو ناپید ہونے کا خطرہ ہے"اس خطرناک صورتحال کی وارننگ لندن سے جاری ایک رپورٹ میں   دی گئی ہے لیکن  پہلے پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی کٹائی کا جائزہ لیتے ہیں۔  کسی بھی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لئے اس  کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات  ضروری ہیں لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔

جنگلات کے اعداد و شمار پیش کرنے والی ویب سائٹ "سی ای او ڈاٹ بز" کے  مطابق پاکستان کے صرف 1.91 فیصد رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور دنیا بھرمیں ہمارا نمبر 173واں ہے، ہمارے ہاں  جنگلات میں 76 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے، ان میں سے ایک صنوبر اور  دوسرے تیمر کے جنگلات ہیں۔ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات شہر کو قدرتی آفات سے بچانے کے لئے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2004 ءمیں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو  نشانہ بنایا تھا، تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا  لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکےگا۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبے میں نصف سے زائد کمی ہو چکی ہے ، حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔ماہرین  متفق ہیں کہ جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس جگہ سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں اور  وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے اور  وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔ 
اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، آئندہ 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسزفضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

اب آتے  ہیں جدید رپورٹ کی طرف ۔ گلوبل ٹری سپیشلسٹ گروپ آف دی انٹرنیشنل یونین فار کانورسیشن آف نیچر نے گذشتہ ہفتے درختوں کے 500 ماہرین اور 61 اداروں کی مدد سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کا عنوان "عالمی سطح پر درختوں کی تشخیص  و   تحفظ ہے۔ اس نئی رپورٹ میں  یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ  جنگلات کے اندر تین میں سے ایک درخت  ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے،  اسی طرح تمام میگنولیا  اقسام میں سے  نصف کو معدوم ہونے کا خطرہ ہے، دنیا بھر کی کم از کم 30 فیصد درختوں کی اقسام کو جنگل میں معدومیت کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درختوں کی 17500 اقسام خطرے میں ہیں۔

 رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر خطرناک حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو جنگلات کی کٹائی اور  موسمیاتی تبدیلی جیسے خطرات کم کرنے کے لئے فوری اقداما ت کرنا ہوں گے ۔  چیرٹی بوٹینک گارڈنز کانزرویشن انٹرنیشنل لندن کے  ڈاکٹر مالین ریورز  کا خیال ہے  "ہمارے پاس کرہ ارض پر درختوں کی تقریبا ً  60 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہمیں پہلی بار یہ معلوم ہوا ہے کہ کن کن اقسام کو تحفظ کی ضرورت ہے؟ ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے اور وہ کہاں ہیں؟ان میں سے  درخت کی  ہر قسم  کا ایک منفرد ماحولیاتی کردار ہے۔


ایک اور رپورٹ،سٹیٹ آف دی ورلڈ ٹریز میں بتایا گیا ہے کہ درختوں کی 60 ہزار اقسام میں سے کم از کم 30 فیصد معدومیت کا شکار ہیں،  142 اقسام تو  پہلے ہی جنگلات سے غائب ہوچکی ہیں جبکہ 442 معدومیت کے بالکل کنارے پر ہیں ، 50 سے کم انفرادی درخت باقی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق  درختوں کے لئے  سب سے بڑا خطرہ فصلیں اگانے کے لئے جنگلات کی منظوری (29 فیصداقسام متاثر)مویشیوں کے چرانے یا کاشتکاری کے لئے کلیئرنس (14فیصد) ، ترقی کے لئے کلیئرنس (13فیصد) اور آگ سے جنگلات کا خاتمہ (13فیصد) شامل ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک درخت  کو انسان خوراک ، ایندھن ، لکڑی ، ادویات اوردیگر کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ اگرچہ ماہرین ماحولیاتی تبدیلی ،  انتہائی موسم اور سطح سمندر میں اضافہ درختوں کے لئے بڑھتے ہوئے خطرات قرار دیتے ہیں  تاہم انہیں امید ہے کہ درختوں کو تحفظ دے کر مستقبل کے لئے بہتری  کی امید کی جا سکتی ہے ۔  جنگلات سے درختوں کی کٹائی روکنے کے لئےضروری ہے کہ  تعلیم اور آگاہی کو فروغ دیا جائے۔  درخت اُگانے کے لئےسکیمیں سائنسی انداز میں ترتیب دی جائیں،  درختوں کے تحفظ کے لیے فنڈ مختص کئے جائیں ۔گذشتہ  300 سال کے دوران  عالمی سطح پر  جنگلات کا رقبہ تقریباً 40  فیصد کم ہوا ہے اور 29 ممالک نے اپنے جنگلات کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ کھو دیا ہے۔ اسی طرح تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سات اہم اجناس دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی کا نصف سے زیادہ حصہ لیتے ہیں۔


اگر عالمی تناظر میں ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو  حالات زیادہ اچھے نظر نہیں آتے۔  شاہراہ قراقرم کے ساتھ پہاڑی علاقوں، ہزارہ ڈویژن کے پہاڑی مقامات، چھانگامانگا اور دیگر اہم مقامات پر جنگلات بے دردی سے کاٹ دیئے گئے تاہم اب حکومت نے ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ کامیابی سے مکمل کیا ہے اور اب دس ارب درخت لگائے جا رہے ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکومت تنہا کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر آنے والے وقت میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے خود کو بچانا ہے تو پوری قوم کو یک جان اور متحد ہو کر کاوش کرنا ہو گی۔ درختوں کی کٹائی کے نقصانات تمام جماعتوں میں پڑھائے جائیں، تعلیمی اداروں میں نوجوان، اساتذہ، بچے اور بزرگ مل کر شجرکاری میں حصہ لیں۔ مجھے یقین ہے کہ قوم مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ جیت سکتی ہے۔

(زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ،مصنفہ اورمتعدد عالمی شہرت یافتہ اداروں کی سفیربھی ہیں ۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا۔زینب وحید کے سوشل میڈیا لنکس مندرجہ ذیل ہیں twitter.com/UswaeZainab3  facebook.com/uswaezainab.official)

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں