فٹبال نکالنے کیلئے کنویں میں اترا، کوشش کے باوجود ہر بار نیچے گر جاتا، گہری ہوتی شام نے اندھیرا کر دیا،قسمت اچھی کہ کمپنی کے ملازمین ادھر آن نکلے

فٹبال نکالنے کیلئے کنویں میں اترا، کوشش کے باوجود ہر بار نیچے گر جاتا، گہری ...
فٹبال نکالنے کیلئے کنویں میں اترا، کوشش کے باوجود ہر بار نیچے گر جاتا، گہری ہوتی شام نے اندھیرا کر دیا،قسمت اچھی کہ کمپنی کے ملازمین ادھر آن نکلے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:141
 فٹ بال کا کھیل فرانسیسی بڑے شوق سے کھیلتے جبکہ ہم بڑے ذوق سے دیکھتے تھے۔ یہاں کئی بار واپڈا اور کمپنی کی ٹیم کے درمیان فٹ بال میچز ہوتے جن میں اکثر کمپنی کی ٹیم ہی فاتح ہوتی تھی۔ کمپنی کی ٹیم میں دو بھائی”مچل اور ماخ“ اعلیٰ درجے کے فٹ بالر تھے۔ بعد میں شاید دونوں یا ان میں سے ایک فرانس کی قومی فٹ بال ٹیم کا رکن بھی رہا تھا۔ اس گراؤنڈ کے ساتھ ایک کھلی جگہ کنویں کی کھدائی ہو رہی تھی۔ شام کے وقت ہم بچے فٹ بال کھیل رہے تھے کہ ہمارا بال اس میں گر گیا۔طیب کی  ہلہ شیری سے میں اس کنویں میں اتر گیا جو کوئی دس بارہ فٹ گہرا تو ضرور ہو گا۔ فٹ بال تو میں نے باہر اچھال دیا۔ میرے باہر آنے کے لئے ساتھیوں نے رسہ پھینکا لیکن کئی بار کی کوشش کے باوجود باہر نہ نکل سکا۔ ہر بار نیچے گر جاتا تھا۔ شام بھی گہری ہونے لگی تھی۔ میں رونے لگا تھا۔ گہری ہوتی شام نے کنویں میں اندھیرا کر دیا تھا۔ میری قسمت اچھی کہ کمپنی کے ملازمین ادھر آن نکلے۔ طیب نے ان کو ماجرہ سنایا۔ انہوں نے رسے کو گرہ لگائیں اور مجھے ان گرہ میں پیر پھنسا کر اوپر آنے کو کہا۔ اللہ نے کرم کیا پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہو گیا۔ سانس میں سانس آیا۔ اتنے بچوں میں سے میں ہی اس کنویں میں کیوں اترا تھا معلوم نہیں مگر اپنی اس حماقت پر آج بھی ہنسی آتی ہے۔
باپ شکاری بیٹا لکھاری؛
ابا جی دادا جان کی طرح عمدہ شکاری تھے مگر میں ان کی کوشش کے باوجود بھی شکار کھیلنے کی طرف مائل نہ ہوا۔ مجھے ابتداء سے ہی کتاب بینی کا شوق تھا۔والد کا نشانہ اتنا عمدہ تھا کہ ائر گن سے دیوار پر سوئی رکھ کر سو فی صد درست نشانہ لگاتے تھے۔ انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے  ائیر گن سے”بتیس(32)تلئیر مارے تھے۔ کندیاں میں ابا جی گوروں کے ساتھ مرغابی کے شکار پر جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے اور مجھ میں شکار کا شوق پیدا کرنے کے لئے اپنی ”ہالینڈ اور ہالینڈ(holland n holland) کی ڈبل بیرل بارہ بور گن میرے کندھے سے لٹا دیتے مگر اس کاوش کے باوجود مجھ میں شکار کھیلنے کا شوق پیدا نہ ہوا۔ یقیناً ا با جی کو مایوسی ہو ئی ہوگی۔ بعد میں یہ گن والد صاحب نے اپنے فرانسیسی باس کو گفٹ کر دی تھی اور دوسری سنگل بیرل بندوق غالباً محمد خاں جونیجو کے دور حکومت میں اسلحہ واپس لینے کی درخواست پر ماڈل ٹاؤن تھانے میں جمع کرا دی تھی۔
ریل کا سفر؛
 پہلا ریل کا سفر بھی مجھے یاد ہے جب ہم دسمبر کی سرد رات سب بہن بھائی والدین کے ہمراہ کندیاں سے لاہور ”ماڑی انڈس“ نامی ریل سے پہنچے تھے۔یہ پیسنجر ٹرین جو ہر سٹیشن پر رکتی۔ اس زمانے میں یہ شام5 بجے ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن سے چلتی اور ساری رات کے سفر کے بعد صبح 8 بجے لاہور پہنچتی تھی۔اس دور میں سامان جستی پٹیوں (ٹرنک)میں رکھا جاتا تھا  اور لمبے سفر کے لئے بستر بند بھی ساتھ ہوتے تھے۔ نئی نسل نے تو بستر بند دیکھے ہی نہیں ہوں گے۔ ایک پورا بستر اس بستر بند میں ہوتا اور اسے رول کرکے اس میں لگے سٹریپ کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا۔ہمارے پاس 3 بستر بند تھے جو ریل کے چلنے کے ایک گھنٹہ بعد کھول کر برتھوں پر بچھا دئیے گئے تھے۔ کندیاں سے روانگی کے لئے ریل نے سیٹی بجائی تو والد صاحب مجھے کہنے لگے؛”بیٹا! ریل کو دھکا لگا تاکہ چل پڑے۔“ میں ریل میں کھڑے کھڑے سیٹ کودھکا لگانے لگا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -