زاہدہ صالحہ خاتون کی رحلت

ان کا نام زاہدہ تھا موصوفہ اپنی ذات میں اسم بامسمیٰ ۔ تقریباً ساٹھ برس کی عمر پائی۔ اس دورانیہ میں ان کی زندگی کے اوراق پلٹیں تو قرون اول کی کسی صالحہ وعابدہ خاتون کا گمان گزرے۔ انہیں دنیا سے لگاﺅ تھا۔ لیکن کم کم۔ عقبیٰ اور آخرت کی فکرہردم غالب عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے بھی ولایغتب بعضکم لبعض کی عملی تصویر۔ بلکہ اپنے ظاہر سے اس قرآنی حکم کی عملی تفسیر پیش کرتی تھیں ۔ سننے والیوں کو ان کی خاموشی ہی خاموش رہنے پر عملاً آمادہ کردیتی ۔ جانے کتنی عورتوں نے ان کے اس عمل ہی سے اپنے لئے اصلاح کا سامان پیدا کیا اور غیبت کی عادت ترک کی اور اپنا دامن اس برائی سے دھو کر اجلا کرلیا۔ انہیں قرآن کے ساتھ محبت نہیں عشق تھا۔ تلاوت کلام اللہ کی عادت مستقل اور پختہ تھی اتنی پختہ کہ معمولات زندگی میں کسی اور عمل میں ناغہ ممکن....لیکن تلاوت کلام اللہ میں کمی آجائے ممکن نہیں۔ جب بھی کوئی ملنے گیا انہیں تلاوت کلام اللہ میں مگن پایا۔ یا خود تلاوت کررہی ہیں یا بچوں کو پڑھا رہی ہے اپنے بچے تو ایک طرف محلے کے سینکڑوں بچے بچیوں نے انہی سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا۔ سب ان کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ یہ تعامل سانس کی آخری ہچکی تک برقرار رہا۔
دنیا سے رخصتی کے وقت کا آخری عمل بھی تلاوت قرآن ہی تھا۔ رمضان کی آمد سے چند روز قبل اپنی قرآنی منزل مکمل کی۔ زندگی میں کتنی مرتبہ تکمیل قرآن ہوئی۔ کوئی شمار نہیں، کوئی کسی وقت ملنے گیا ان کو تلاوت ہی میں مشغول پایا اس تعامل کے باوجود حقوق العباد کا پورا خیال رکھتی تھیں۔ زندگی بھر نہ کبھی ساس سے جھگڑا نہ نند سے تو تکار۔ ان کی زندگی صبر بس صبر ہی سے عبارت تھی لوگ اپنے پیاروں کی موت پر روتے پیٹتے ہیں آنسو بہاتے ہیں لیکن جانے کیوں موت کے بعد ہاتھ لگانے سے بھی گریزاں ہی نہیں بلکہ ڈرتے ہیں، نہلانے کے لئے غسال کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ کیسی عورت تھی جس کو غسل دینے والی خود اس کی نند ہی تھی جو بری کے پتوں میں جوش دیئے پانی کے ساتھ اپنے بہتے آنسوں سے اپنی نند کو خود غسل دے رہی تھی۔ زندگی کے نشیب وفراز میں بہت سے مسائل ومصائب سے واسطہ پڑا لیکن صبر کا دامن کبھی ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ کسی تنگی وترشی کا گلہ تو دور بہت دور کی بات ہے۔ کبھی حرف شکایت زبان پر سہواً بھی جاری نہ ہوا۔ کم وبیش ساٹھ باسٹھ برس اس عالم فنا میں بسر کئے۔ کوئی تو آکر بتلائے کہ ان کی زبان پر حرف اف بھی آیا ہو۔
23جون 2014ءان کا وقت موعود تھا۔ معمول کے مطابق تہجد کے وقت رب کے حضور سجدہ ریز ہوئیں۔ شاید طبیعت میں اضمحلال کی کیفیت ہو۔ دعا ومناجات کے بعد بغرض استراحت بستر پردراز ہوگئیں۔ موذن نے حی علی الصلوٰة الصلوٰة خیرمن النوم کی ندادی اس پر بھی نہ اٹھیں کسی نے جگاکر نماز ادا کرنے کا کہا لیکن وہ مستقل رب کے حضور پہنچ چکی تھیں۔ اور زبان حال سے کہہ رہی تھیں میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے۔ سچ ہے موت اٹل حقیقت ہے۔ جب آتی ہے تو لایستا خرون ساعة ولا یستقدمون کا فرمان اپنی سچائی ثابت کردیتا ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد جس گھر میں عمر کا بیشتر حصہ گزرا اسی گھر سے رخصتی ہوئی۔ رائے ونڈ کے حافظ سلیمان نے نماز جنازہ میں امامت کرائی۔ ایک جم غفیر نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ دن میں انتہائی گرمی تھی لیکن شام کو جب ان کا جسم خاکی بغرض تدفین گھر سے اٹھا تو رحمت کی گھٹا چھم چھم برسی اور سارے ماحول کو بہار دے گئی یہ کیفیت دفن تک جاری رہی۔ زندگی میں جب بھی مشکل وقت آیا۔ تو اہل محلہ ان سے دعا کی التجا کرتے۔ اللہ کے ہاں سے قبولیت کے دروازے واہوجاتے مشکلیں حل ہوجاتیں۔ غالب نے کہا تھا :
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہرسفری کا
لیکن پوراوثوق ہے کہ وہ اپنی گٹھری سلامت ہی لے کر رخصت ہوئیں۔ اگر سوفیصد نہیں تو نامہ اعمال میں حسنات کو غالب لے کر گئیں کیونکہ گناہوں سے سو فیصد مبرا انبیاءہی ہوتے ہیں۔ ان کے انتقال سے میرا سینہ فگار ہے دل پریشان ہے۔ زندگی بھر صرف تین مواقع ایسے آئے کہ مجھ سے دامن صبر چھوٹتا محسوس ہوا آنکھوں سے آنسو سیل رواں بن گئے۔ ان میں ایک موقعہ اسی زاہدہ عابدہ کی جدائی اور لحد میں اتارنے کا لمحہ تھا۔ میں رویا بہت رویا میں کیوں نہ روتا۔ وہ میری ماں جائی بہن تھی، میری غم گسارتھی، حوصلہ مند تھی اور حوصلہ دینے والی تھی۔
اللھم ارحمحھاو عافھاوادخلھافی الجنة