آزادی اور انقلاب کیا ہے؟

آزادی اور انقلاب کیا ہے؟
 آزادی اور انقلاب کیا ہے؟
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج کے ہر لیڈرتک انقلاب ہی ایک دوائے درد دل ہے جو بتائی گئی ۔ جماعت اسلامی کا ہرامیر شروع ہونے والے ہر سال کو انقلاب کا سال بتاتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے مولانا فضل الرحمن کے لئے کوئی خطاب اگر مناسب سمجھا ہے تو وہ امام انقلاب ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی سرخ ٹوپی تو خیر سے علامت ہی انقلاب کی ہے۔ الطاف حسین کے درد انقلاب کو تب بہت محسوس کیا گیا جب عمران فاروق قتل کردیئے گئے تھے ۔ میاں شہباز شریف اکثر ترنگ میں آکر اپنے ہی دور اقتدار میں انقلاب کا نعرہ بلند کردیتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت ذوالفقار علی بھٹو کا انقلاب آفریں فلسفہ گڑھی خدابخش میں دفنا چکی ہے، مگر زندہ رہنے کو انقلاب کا نعرہ بدستور قائم رکھا ہوا ہے۔ انقلاب ہائے رنگا رنگ میں دو نئے اضافے ہوئے ہیں۔ مجموعہ تضادات، طاہر القادری اور نوجوان بزرگ عمران خان۔ انقلاب کے یہ سارے نعرے جو آج تک ہم نے سنے ہیں وہ خون میں لتھڑے ہوئے نعرے ہیں۔ مذہبی وسیاسی قیادت نے انقلاب کی جو بھی تصویر آج تک پیش کی اس میں خون کے دھبوں کو کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ سیاسی قیادت میں اگر الطاف حسین کو ہی لے لیں تو ان کی کتاب انقلاب کے کسی باب کا تتّمہ خون بہائے بغیر لکھا نہیں جاسکتا۔ جس انقلاب کی دہائیاں میاں شہباز شریف دیتے رہے ، اس میں جناب آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور کھمبوں پر لٹکانے سے کم کی کوئی بات آپ کو نظر نہیں آئے گی۔
پیپلزپارٹی کا حدوداربعہ ناپ لیں تو شعوری طورپر اس جماعت نے اپنی بقا کا راز اپنے اجداد کے خون میں چھپا دیکھ لیا ہے۔ اب یہ الگ سوال ہے کہ خونی انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والی قیادت خود اپنے نعرے سے مطمئن ہوتی ہے یا نہیں۔مگر سچ یہ ہے کہ قلب کو گرما دینے اور روح کو تڑپا دینے والا یہ نعرہ عوامی جذبات کو بے قابو کردیتا ہے۔ ہمارے ہاں کارکن کارشتہ لیڈر کے ساتھ ایسے بھی غیرمشروط ہے۔ اپنی قیادت کی زبان سے نکلے انقلابی نعروں کو وہ ایک حقیقت سمجھ کر اپنی زندگیاں داﺅپر لگادیتے ہیں۔
انقلاب کے اب دو نئے امام اپنے پیروکاروں کو خوابوں کے تخت سلیمانی پر بٹھائے انقلاب کی طرف رواں دواں ہیں خدا جانے کہ یہ سیلاب بلا کہاں جا کر تھمے گا، مگر ایک بات طے ہے کہ جس نعرے پر خلق خدا کو اٹھایا گیا ہے اس نتیجے میں کوئی چیز اگر برآمد ہوسکتی ہے تو وہ فساد ہے۔ نظام کی جن خرابیوں پر علامہ جو سوالات اٹھاتے ہیں وہ درست ہیں۔ اور چار نشستوں کا وہ مسئلہ بھی درست جو عمران خان نے اٹھائے ہیں مگر اس کے لئے بلند کئے گئے خون آلود نعرے کو کوشش کے باوجود بھی درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔جب بھی کوئی جماعت انقلاب کا نعرہ بلند کرتی ہے تو وہ ایک نئی صبح کے طلوع ہونے کا اعلان کرتی ہے ایک ایسی صبح جس میں چور اورلٹیرے خود کے لئے جائے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے اور حشر قائم ہوچکا ہوگا۔ لیکن ہر جماعت کا خیال یہ ہوتا ہے۔ چوروں کی یہ فہرست ہمارے ناموں سے خالی ہوگی۔ اسی بناءپر علامہ طاہر القادری کے لئے مسلم لیگ تو بدی کا محورہے مگر تحریک انصاف اور ایم کیوایم کو وہ پارسائی کی سند عطا کرچکے ہیں۔ خود ان کی ذات شریف کے محاسبے کا تو تصور بھی خدا کی خدائی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔

عمران خان جس صبح تازہ کا خورشید تراشنے کے دعویدار میں اس میں ہاتھ بٹانے کے لئے جناب آصف علی زرداری بھی آگے بڑھ چکے۔ اب ایک نئی صبح طلوع ہو گی اور حشر کا سماں ہوگا۔ اس میں پیپلزپارٹی کہاں کھڑی ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ معاشرہ خواب فروشوں کا معاشرہ ہے۔ آنکھوں میں یہی خواب سجائے یہ وکلاءتحریک کا حصہ بنے مگر ہاتھ میں کیا آیا ؟ وکیل اپنا کیس جیت گئے اور جناب اعتزاز احسن اپنی ہی نظم بھول گئے۔ عدل بنا جمہور نہ ہوگا ، عدل بنا دستور نہ ہوگا۔ اب بھی جب لال بینڈ اس نظم کے سر بکھیرتا ہے تو عوام ایک شرمندہ احساس کے ساتھ اس کا لطف لیتے ہیں۔ ایک نعرہ اٹھا ”آزاد عدلیہ“ ایک اعلان ہوا ”عدلیہ آزاد ہوگئی“ ایک سوال ہے، عدلیہ آزاد ہو گئی؟
ہمارے ہاں ہمیشہ جنگ کا نقطہ آغاز اور نقطہ انتہا کچھ اور ہوتا ہے، مگر اس دوران عوام کو جو نعرے دیئے جاتے ہیں، وہ بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ تشدد میں مست الست نعروں کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ ماردیں گے مر جائیں گے، کٹ جائیں گے، ٹانگ دیں گے آنکھیں پھوڑ دیں گے۔ گدی سے زبان کھینچ لیں گے، سڑکوں پر کھینچیں گے، ٹکرا جائیں گے، کفن باندھ کے نکلے ہیں، کشتیاں جلاکر نکلے ہیں۔ ان تمام نعروں کے تمام اجزائے ترکیبی کو ملاکر ہم انقلاب کا مفہوم نکالتے ہیں۔ پاکستان 1947ءمیں آزاد ہوچکا اب پھر آزادی کا نعرہ بلند ہوا ۔ مسئلہ یہاں چار نشستوں کا ہے اور نعرہ آزادی کا بلند کردیا گیا ہے، ہمیشہ کی طرح یہاں بھی قیادت کا لائحہ عمل اورعوام کی امنگوں میں زمین وآسماں کا فرق ہے عوام کا احساس وہی تحریک نظام مصطفی اور وکلاءتحریک والا ہے اسلام آباد پر قبضہ کرنے والے ایک عام آدمی سے اگر چودہ اگست کے انقلاب کے بارے میں پوچھ لیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ اس نے خوابوں کا ایک ایسا نگرآباد کر رکھا ہے جس میں آخر کو ناکامی کی دھول ہی اڑتی نظرآئے گی۔ اس نگر کو آباد کرنے میں قیادت کا ہاتھ ہے۔ یہ تو خیر رہے گا، مگر یہ خونی نعرے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ جونعرہ طاہرالقادری اور عمران خان نے بلند کیا اس کا مطلب وہ جانتے ہیں ؟
طاہرالقادری نے واضح اعلان کیا کہ جہاں پولیس رکاوٹ بنے گی وہاں میرے کارکن دھاوا بول دیں۔ ساتھ میں شریعت کا اصول بھی بیان کردیا کہ کان کے بدلے کان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ، عمران خان کہتے ہیں میرے کارکن کو اگر پولیس نے ہاتھ لگایا میں خود اپنے ہاتھ سے اس کو پھانسی دوں گا۔ یہ ہم جانوروں کے معاشرے میں آباد ہیں، یا پھر ان دونوں صاحبان نے خود کو ماﺅزے تنگ اور لینن کی جوڑی سمجھ لیا ہے ؟ کیا پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کا آخری حل ایک خونی معرکہ ہے ؟ بالکل بھی نہیں ۔ انقلاب صرف استبدادی نظام کو الٹنے کے لئے آخری نسخہ ہے۔ جس ریاست میں آئین سلامت ہو اور ادارے موجود ہوں مسئلہ صرف آئین کے نفاذ کا ہو وہاں انقلاب کا نعرہ عوام کو تشدد کی طرف لے جانے کا ایک راستہ ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئین بھی موجود ہے اور شعوری طورپر اس کا احترام بھی ۔ا ادارے اب بھی قائم ہیں جو قانون کے تابع ہیں۔ چیلنج یہاں صرف دو ہیں۔ ایک معاشرے کی تربیت ، دوسرا آئین اور قانون کی اپنی روح کے ساتھ بالادستی ۔ ان دو کاموں کے لئے انقلاب کا راستہ جو بھی دکھاتا ہے وہ دراصل خود کنفیوژن کا شکار ہے استبداد کے خلاف بھی انقلاب کا جو نعرہ بلند ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ خونی ہی ہو۔ اصولی طورپر انقلاب پرامن ہی ہوگا۔ باقی فیصلہ حالات نے صادر کرنا ہوتا ہے۔ ہتھیار نہیں انقلاب کی روح عوام کی آواز ہوتی ہے۔ اکثریت کا فیصلہ ہی انقلاب کے دروازے پر آخری دستک ہوتا ہے۔ کیا علامہ طاہرالقادری اور عمران خان اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں؟
اول تو دونوں کی پرواز دوالگ فضاﺅں میں ہے۔ مگر یہ ایک بھی ہو جائیں تو کیا کم ازکم پندرہ کروڑ انسان بھی ان کی حمایت کرتے ہیں ؟دس کروڑ بھی ؟ یا پھر اٹھارہ کا نصف نوکروڑ ؟ اس سے کچھ کم آٹھ یا پھر سات؟ پھر کیسا انقلاب اور کہاں کا انقلاب ؟ اور پھر خون میں لتھڑے ہوئے نعرے ؟ علامہ طاہرالقادری اپنی ساری زندگی کی جدوجہد کو عدم تشدد پر کھڑا کرتے ہیں اور عمران خان کی بنیاد اسی پر ہے مگر جن نعروں کی بنیاد پر انہوں نے جذبات کی لہروں کو چھیڑا ہے وہ اگر بے قابو ہوگئیں تو یہ نظام کہاں جائے گا؟ایجنڈا کیا ہے یہ سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ مگر نعروں کی جو تجارت اس ایک ماہ میں ہوئی ہے اس میں سرتاپا نقصان عوام کا ہے۔ وہ نقصان جس کا ادراک تحریک انصاف اور منہاج القرآن کی قیادت کو ہے۔ یہ وہی راستہ ہے، جس کی مذمت طاہرالقادری کی کتاب ”دہشت گردی اور فتنہ خوارج“ میں ہوئی جس کی مذمت عمران خان کی کتاب ” میں اور میرا پاکستان “ میں ہوئی کچھ اپنا لکھا ہی مان لیجئے یا پھر ہماری مان لیجئے۔ پاکستان میں اس وقت تک کوئی انقلاب نہیں آ سکتا جب تک انقلاب کا لفظ سیاست کی لغت سے اکھاڑ نہ پھینکا جائے۔ عمران خان کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے جو مذاکرات کی دعوت دی ہے تو اسے مان لینا چاہئے اور باہمی گفت وشنید کے ذریعے مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔

مزید :

کالم -