یوم آزادی کا مذاق؟
-14اگست کو وزیراعظم نواز شریف نے زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی کی تعمیرِ نو کے بعد اس کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے،ایک طرف شہادتیں ہو رہی ہیں اور دوسری جانب انقلاب اور آزادی مارچ۔ پاکستان کی ترقی کے لئے مثبت سیاست ہونی چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں منفی سیاست کو خیر باد کہہ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تعمیر و ترقی ان کی اولین ترجیح ہے ان کی توجہ اس سے نہ ہٹائی جائے، وہ پاکستان کو دنیا میں قابل فخر ملک بنائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان پہلے سے زیادہ پرامن ہو گیا ہے، خنجراب سے گوادر تک اقتصادی راہداری کامنصوبہ صوبے کی تقدیر بدل دے گا۔ وہ توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے کام کر رہے ہیں اور 2017ء تک 10400 میگا واٹ بجلی حاصل ہو جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن کے لئے وفاقی حکومت بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے، خیبرپختونخوا حکومت لانگ مارچ اور آزادی مارچ بے شک کرے، لیکن صوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے بھی کام کرے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی موجود تھے، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ آزادی مارچ تو یہ ہے کہ یہاں سول اور ملٹری لیڈر شپ ایک جگہ بیٹھ کر یومِ آزادی منا رہے ہیں اس سے بڑا مارچ کیا ہو سکتا ہے۔ ریذیڈنسی کو گزشتہ سال دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس کی بحالی کا کام ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں ملک کے تمام مسائل بھی اِسی طرح ریکارڈ مدت میں حل ہو جائیں۔
معلوم ہوتا ہے وزیراعظم کی تقریر کا دہشت گردوں کی صحت پر کافی بُرا اثر پڑا اور ان سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوا، انہوں نے سمنگلی ائیربیس اور کوئٹہ ائیرپورٹ پر حملہ کر دیا۔ ان کی سمنگلی ایئر بیس میں داخل ہونے کی کوشش سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دی۔ بھرپور مزاحمت کے نتیجے میں11حملہ آور ہلاک، جبکہ8 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ ائیرپورٹ اور سمنگلی ائیربیس کے اطراف میں یکے بعد دیگرے 8 دھماکے ہوئے، جس کے بعد شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عسکری ذرائع نے بتایا ہے کہ نامعلوم سمت سے 2 راکٹ بھی فائر کئے گئے جو سمنگلی ایئربیس کے قریب خالی میدان میں گرے۔ حملے کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے دستی بموں کا استعمال بھی کیا گیا، جبکہ ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ اس حملے نے جشنِ آزادی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔
عجب صورت حال ہے، ایک طرف تو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عہد کیا جا رہا ہے، دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کے خلاف بھر پور طریقے سے جنگ لڑی جا رہی ہے، دہشت گرد بھی وقتاً فوقتاً حملے کر کے اپنے غصے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کے ذریعے حکومت کا تختہ اُلٹنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ہزاروں (یا لاکھوں؟) لوگ دل میں یہ خواہش لئے نکلے ہیں کہ وہ اسلام آباد پہنچیں گے اور ملک میں سب ’’ٹھیک‘‘ کر دیں گے۔ لگتا ہے ہمیں سولہویں ،سترہویں صدی میں پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے، جب کوئی جنگجو لاؤ لشکر لے کر نکلتا تھا، جس ملک پر چاہے حملہ کرتا تھا اور اُسے تاراج کر دیتا تھا۔ مت بھلایا جائے کہ یہ اکیسویں صدی ہے، یہ ہمارا ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے، یہاں18کروڑ لوگ بستے ہیں۔ یہ کسی کی ذاتی جاگیر یا میراث نہیں ہے، اس ملک میں جنگل کا قانون نہیں چلتا، اس کا اپنا ایک دستور ہے، قانون ہے، جس کو توڑنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کے مخالفین کے تمام مطالبات غلط ہیں، کچھ باتیں درست بھی ہو سکتی ہیں، شکایات بھی حقیقی ہو سکتی ہیں، شکوے جائز بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کا ازالہ کرنا حکومت کا فرض ہے اورسسٹم پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن ہٹ دھرمی مسائل کا حل نہیں ہے۔ گزشتہ قریباً ایک ہفتے سے لوگوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں، کئی مقامات پر لوگ اپنے ہی گھر میں قید ہو کر رہ گئے، ماڈل ٹاون کے بہت سے علاقے ایسے بھی تھے جہاں بنیادی ضروری اشیاء بھی میسر نہیں تھیں۔کنٹینرز میں پڑا سامان سڑ گیا، لوگوں کا لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان ہو گیا، کیا یہ سب ہمارے اہلِ سیاست کو نظر نہیں آتا یا ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کیا ساڑھے آٹھ ہزار روپے فی کنٹینر ادا کرنے سے نقصان کا ازالہ ہو جائے گا۔ تبدیلی، انقلاب اور اس کو روکنے کی لڑائی میں عوام پس کر رہ گئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی پاکستانی عوام کے نمائندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،لیکن عوام کے حقوق کی یہ کیسی لڑائی ہے جس میں ان ہی کے حقوق غصب ہو رہے ہیں۔یوم آزادی پر مختلف پروگرام پیش کرنے کا کام ٹی وی چینل کرتے تھے اس دفعہ اس کی جگہ احتجاجی سیاست نے لے لی اور اس طرح یومِ آزادی کا مذاق اڑایا گیا۔
عمران خان کا آزادی مارچ جب گوجرانوالہ پہنچا، تو مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کا ایک گروپ اس کے بعض شرکاء سے اُلجھ پڑا۔ پتھراؤ میں کئی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے اور خان صاحب کا کنٹینر بھی ’’زخمی‘‘ ہو گیا۔ اس سے فضا میں تلخی پیدا ہو گئی اور احتجاج کی لہریں ملک بھر میں پھیل گئیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے فوری طور پر اقدام کرتے ہوئے آزادی مارچ کے راستے میں واقع مسلم لیگ(ن) کے تمام دفاتر کو سیل کرنے حکم دے دیا۔ گوجرانوالہ کی واردات سے پہلے حالات پُرامن تھے اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے لشکر بخیرو خوبی اسلام آباد پہنچ جائیں گے، لیکن گوجرانوالہ کے واقعہ نے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے یا بعد کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ ہو سکتا ہے کہ جس سے حالات کوئی نیا موڑ مڑ جائیں۔
ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان اور اس کی جمہوریت کی حفاظت فرمائے اور ایسا کچھ نہ ہونے پائے کہ ہماری قومی زندگی کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے۔