ہم غریب نہیں ہیں۔۔۔مگر؟
ہمارے محترم وزیراعظم میاں شہباز شریف،ہماری محترمہ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف، ہمارے نائب وزیراعظم جناب اسحاق ڈار اور دیگر مسلم لیگی زعماء مسلسل یہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی ”اب نہیں رہی“۔ اب سب ”ہرا ہرا“ہے، اچھا وقت واپس آ چکا ہے۔ مہنگائی جو کبھی 40پرسنٹ تک چلی گئی تھی اب قائد محترم میاں نواز شریف کی قائدانہ صلاحیت سے ”سنگل ڈیجٹ“میں آگئی ہے۔ یہ سن کر دِل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ آج ہمارے ملک میں عوام کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی با آسانی خود بھی کھا سکتے اور اپنے بچوں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔اس کے لیے اُنہیں کسی کے آگے ہاتھ یا جھولی پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن دوسری طرف کچھ بین الاقوامی ادارے(عالمی بنک اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے) اور کچھ ”دیسی ماہرین معیشت“ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں شرح غربت یا غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے۔عالمی بنک کے مطابق 40فیصد ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے غربت انڈکس کے مطابق 47 فیصد ہو گئی ہے۔ پاکستان میں آج 10 کروڑ افراد کی روزانہ کی کمائی 900روپے سے زیادہ اور 1000 روپے سے کم ہے۔ جو دو وقت کی روٹی کے لئے ناکافی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بچے جس ملک میں سکول نہیں جاتے یہ بھی ہمارا ہی اعزاز ہے۔1980ء میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی ہماری تھی مگر آج ہمارا شمار سب سے کم والوں میں ہے۔ یہ ”اعزازات“ پرانے نہیں یہ اقوام متحدہ کی دو ماہ پرانی رپورٹ ہے۔ تھوڑا عرصہ پہلے ہمیں کچھ تجزیہ کاروں نے یہ نوید بھی سنائی تھی کہ ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد 60فیصد ہو چکی ہے،یعنی پاکستان میں 15کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں، جن کے لئے دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو چکا ہے۔ حکومت اور غیر سرکاری اداروں کی ان رپورٹس کے درمیان”پھنسے“ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں آتا تھا کہ حقیقت کیا ہے، لیکن پھر سچائی سامنے آگئی گزشتہ ہفتے ایک رسم قل میں جانے کا اتفاق ہوا،اپنی بیماری کے باعث تقریباً تین سال کے بعد کسی ایسی مذہبی رسم میں شرکت کی تھی جس کے اختتام پر کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ قران پاک پڑھا گیا، درود و سلام ہوا اور پھر دُعا کی گئی، جس کے بعد پہلے لوگوں میں چنے اور میٹھے دانوں کے شاپر تقسیم کیے گئے۔ پھر پھلوں کے شاپر دیے گئے اور اس کے بعد کھانے کی نوبت آئی لوگوں کو پلیٹ بھر کر کھانا(مرغ پلا) دیا گیا اور اس کے بعد میٹھے چاول یعنی زردہ (امرتی، مربہ اور چم چم) لیکن جو اصل بات بتانی تھی وہ یہ ہے کہ کسی نے بھی چنوں اور پھلوں کا پیکٹ لینے یا کھانا کھانے سے انکار نہیں کیا۔ کسی نے بھی نہیں کہا کہ اسے بھوک نہیں ہے۔ حالانکہ ماضی میں ایسا ہوا کرتا تھا لوگ اکثر کھانا لگائے جانے سے پہلے اُٹھ جایا کرتے تھے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس دن قران خوانی میں اگر 50افراد شریک ہوئے تو کھانا کھاتے وقت وہ تعداد دو گنا سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ وہ خالی قالین جن پر کوئی نہیں بیٹھا تھا وہاں پر لوگ ڈبل قطار میں بیٹھے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ جنہوں نے یہ بندوبست کیا تھا ان پر اللہ کا بڑا فضل تھا اور انہوں نے کھانے کا اتنا انتظام کیا تھا انہوں نے نہ صرف سب کو پیٹ بھر کر کھلایا،بلکہ جس نے دوبارہ مانگا، تیسری بار مانگا اُسے بھی ملا اور پھر وہاں بیٹھے بچوں نے (جو دُعا کے بعد کھانے سے پہلے آئے)پھلوں کو اپنی جیبوں میں رکھ لیا اور پھلوں کے خالی شاپنگ بیگ میں چاول گھر لیجانے کے لئے محفوظ کر لیے اور ایسا صرف بچوں نے نہیں کیا بڑوں نے بھی کیا۔(ماضی میں ایسی ہی ایک رسم قل میں میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا تھا کہ بابا آپ نے ”اپنا“ پھلوں کا لفافہ اس بوڑھے آدمی کو کیوں دے دیا اس کے پاس تو پہلے ہی دو تین لفافے تھے تو میں نے اُس سے کہا تھا کہ بیٹا اس نے ایک سے زیادہ لفافے اس لئے اکٹھے کئے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو پھل کھلا سکے)جن کو نجانے کب سے وہ اچھی کوالٹی کے پھل نہیں کھلا سکا۔ (میں تو آپ کے لئے روزانہ تازہ پھل لاتا ہوں لہٰذا ہمیں اِن پھلوں کی ضرورت نہیں ہے) لیکن اب پتہ چلا کہ پھل تو دور اب تو گھروں میں کھانا پکانا اور کھلانا بھی شاید لوگوں کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔ایسا اچھا کھانا جس میں مرغی کی بوٹیاں وافر ہوں اور ایسا زردہ کہ جس میں میٹھا بھی پڑا ہو (میٹھے سے مراد مٹھائی ہے)۔ اس کے باوجود ہمیں کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے، یعنی اب عوام کی کھانے پینے کی اشیا خریدنے کی قوت بڑھ چکی ہے۔یہ مت سمجھیں کہ میں جو کہانی بیان کر رہا ہوں یہ کسی گاؤں، لاہور سے دور کسی علاقے کی ہے جہاں پر لوگوں کی قوتِ خرید بہت کم ہے۔ یہ کہانی اِسی لاہور کی ہے اِسی لاہور کی آبادی گرین ٹا ؤن کی ہے وہ گرین ٹاؤن جو کبھی بنگلہ دیش سے آنے والے بہاریوں کے لئے آباد کیا گیا تھا اور وہ ایک کمرے کے کوارٹر جو آج تین تین منزل کے مکانوں میں بدل چکے ہیں۔ وہ مکان کہ جن کے باہر اب پرانی ہی صحیح،مگر گاڑیاں بھی کھڑی ہیں، موٹر سائیکلیں بھی موجود ہیں،لیکن عالم یہ ہے، سچ یہ ہے کہ وہاں اس رسم قل میں لوگوں نے پہلے تو گھروں سے نکل کے خوب کھانا کھایا اور پھر کھلانے والوں کی ہمت اور معاملہ فہمی، اتنا پکایا کہ اس نے پہلے خوب کھلایا اور پھر سب کو بھجوایا (یعنی سب کے گھروں میں بھی بھجوایا)۔ شاید نہیں یقینا انہیں بھی اپنے ہمسایوں کے حالات کا (سفید پوشی کا)اندازہ تھا کہ ارد گرد کے ہمسایوں کے حالات کیا ہیں یا شاید انہیں آج کے زمانے میں بھی پیارے نبیؐ کی یہ پیاری بات یاد ہے کہ اپنے ہمسائے کو بھوکا مت سونے دو، کیونکہ اس کا بھی تم سے پوچھا جائے گا۔ اللہ میاں یہ پوچھے گا کہ تمہارا ہمسایہ بھوکا کیوں سویا۔ میں 32 سال نوائے وقت سے وابستہ رہا اس سے پہلے سات سال پاکستان سے باہر رہا۔ میرا تعلق ایک ”اپر مڈل کلاس گھرانے“سے تھا۔ الحمدللہ برا وقت نہیں دیکھا یہ نہیں کہوں گا کہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے، لیکن جو اب دیکھا وہ میرے لئے ناقابل ِ برداشت تھا یہ اُمید نہیں تھی کہ اس طرح لوگوں کی مجبوریوں کا تماشہ ہمارے سامنے لگے گا۔ مجھے تو وہ رسم قل،چالیسویں اور شادیاں یاد ہیں جہاں لوگ تھوڑا سا کھانا لیتے تھے اور وہ بھی مجبور کرنے پر کہ ”کھانا کھا کے جائیں گے۔ آپ ایسے جا نہیں جا سکتے“اس تکرار کے بعد مجبورا بیٹھ کے تھوڑا بہت چکھ لیتے تھے، لیکن آج کیا وقت آگیا ہے کہ لوگ کھل کر کھانے اور پھر لے کر جانے پر مجبور ہیں تاکہ وہ باپردہ خواتین یا وہ بزرگ خواتین جو گھروں سے آ نہیں سکتیں ان کو بھی کچھ ”مرغن“کھانا مل جائے۔میری تو تمام صاحب ِ حیثیت لوگوں سے التماس ہے اپنے ”کم حیثیت ہمسایوں“کو ہر ہفتے دعوت دیا کریں اللہ آپ کا دستر خوان وسیع کرتا جائے گا۔
٭٭٭٭٭